تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ لسانی بنیادوں پر تقسیم ہونے لگی

0

امت رپورٹ
حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر گروپنگ کا معاملہ تو اب خفیہ نہیں رہا۔ اس سلسلے میں بالخصوص جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے طاقتور گروپ زیر بحث رہے۔ تاہم اب یہ گروپنگ وفاقی کابینہ میں بھی واضح ہونے لگی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کے درمیان یہ گروپنگ لسانی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے خلاف خیبر پختون کے وزرائے مملکت علی محمد خان، مراد سعید اور شہریار آفریدی کا ایک غیر اعلانیہ اتحاد بنا ہوا ہے۔ اس گروپ کو وزیر دفاع پرویز خٹک کی سپورٹ حاصل ہے۔ تاہم وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی مستعفی ہونے کے بعد اب اس گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ خیبر پختون سے تعلق رکھنے والے گروپ میں شامل وزرا نے شروع سے ہی فواد چوہدری کو بطور وفاقی وزیر اطلاعات کے طور پر دل سے قبول نہیں کیا۔ کابینہ کی تشکیل کے کچھ عرصہ بعد ہی فریقین میں سرد جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہ سرد جنگ اب آہستہ آہستہ گرما گرمی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں وزرا کے درمیان ایک دوسرے سے تلخ کلامی بھی اب معمول بنتی جا رہی ہے۔ پختون گروپ کے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، وزیر مملکت برائے کمیونیکیشن مراد سعید اور وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے شکایت ہے کہ وہ کسی سے مشورہ کئے بغیر اکثر ایسی باتیں کر دیتے ہیں جو پارٹی اور حکومتی پالیسی کے برعکس ہوتی ہیں۔ جس سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ وزرائے مملکت اس پر بھی شاکی ہیں کہ بطور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپوزیشن کو ڈپلومیسی سے گھیرنے کے بجائے تند و تیز بیانات دے کر ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ پارلیمنٹ عملاً مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ بطور حزب اقتدار یہ پی ٹی آئی کی زیادہ ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے معاملات روانی سے چلتے رہیں۔ ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ پہلے علی محمد خان کی جانب سے فواد چوہدری کے بیان کی تردید، اندرون خانہ چلنے والی اسی سرد جنگ کی کڑی تھی۔ اپوزیشن کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ اجلاس میں فواد چوہدری کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ جس پر وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں چیئرمین سینیٹ کے اقدام پر وزیر اعظم نے سخت تنقید کی۔ تاہم علی محمد خان نے فواد چوہدری کے بیان کی دو ٹوک تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں زیر بحث ہی نہیں آیا۔ جس پر اپنے بیان کی حمایت میں فواد چوہدری دوبارہ میڈیا میں آ گئے تھے۔ تاہم بعد میں وزیر اعظم عمران خان نے مداخلت کر کے یہ سلسلہ رکوایا۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ میں پختون گروپ کا مقابلہ کرنے کے لئے فواد چوہدری نے بھی اپنے چند حامیوں کا گروپ بنا رکھا ہے۔ اس میں فیاض الحسن چوہان بھی شامل ہیں۔ اگرچہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا وفاق سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن جب بھی وفاقی وزیر اطلاعات پر مخالف گروپ کی طرف سے کوئی حملہ ہوتا ہے تو قریبی تعلقات کی بنیاد پر وہ فواد چوہدری کی حمایت کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول چونکہ پختون گروپ میں شامل تقریباً تمام وزرا اور وزرائے مملکت تحریک انصاف کے پرانے رہنما ہیں۔ جبکہ فواد چوہدری کو آئوٹ سائیڈر قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا پختون گروپ کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ ذرائع کے مطابق فواد چوہدری کو ایک ڈس ایڈوانٹیج یہ بھی ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے طاقتور وزیر شفقت محمود آج کل وزارت اطلاعات کا قلمدان حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شفقت محمود اس وقت وفاقی وزیر ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ ہیں۔ تاہم ان کی شدید خواہش ہے کہ انہیں وزیر اطلاعات بنا دیا جائے۔ جس کے لئے پس پردہ وہ بھرپور لابنگ کر رہے ہیں۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں اس سلسلے میں انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سے بھی مدد مانگی ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے اپنے قریبی تعلقات استعمال کرتے ہوئے ان کے لئے راستہ ہموار کریں۔ تاہم شیخ رشید نے فی الحال یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ ہے۔ لہٰذا وہ مداخلت نہیں کر سکتے۔ ذرائع کے مطابق فواد چوہدری سے وزارت اطلاعات کا قلمدان چھیننے کے لئے صرف شفقت محمود ہی لابنگ نہیں کر رہے۔ بلکہ میڈیا سے متعلق وزیر اعظم کے خصوصی مشیر افتخار درانی بھی وزیر اطلاعات بننے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں فواد چوہدری کی وزارت خطرے میں گھری ہوئی ہے۔
دوسری طرف خیبر پختون میں بھی سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان کے درمیان سخت رسہ کشی چل رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک کی خواہش ہے کہ ایم پی اے منتخب ہونے والے ان کے بیٹے کو صوبائی کابینہ میں شامل کیا جائے۔ تاہم وزیر اعلیٰ محمود خان اس پر تیار نہیں۔ جس کی وجہ سے پرویز خٹک سخت برہم ہیں۔ نجی محفلوں میں آج کل وہ خیبر پختون حکومت کی کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کو یہ بھی شکوہ ہے کہ نیب نے جنگلات اراضی اسکینڈل کے حوالے سے ان کے خلاف جو انکوائری شروع کی ہے۔ اس میں وزیر اعلیٰ محمود خان کوئی مدد نہیں کر رہے۔ بلکہ نیب کو سرکاری ادارے کے ریکارڈ تک مکمل رسائی دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ محمود خان کو قبل ازیں پرویز خٹک گروپ کا اہم رکن قرار دیا جاتا تھا۔ یہ بات بھی عام ہے کہ محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنانے میں پرویز خٹک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب یہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق پرویز خٹک نے دراصل وزارت اعلیٰ خیبر پختون کے مضبوط امیدوار عاطف خان کا راستہ روکنے کے لئے محمود خان کی بھرپور سپورٹ کی تھی۔ عاطف خان اور پرویز خٹک کے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ جبکہ وزارت اعلیٰ کے معاملے پر ان تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ وزارت اعلیٰ کا قلمدان حاصل نہ کرنے کا درد اب تک عاطف خان اپنے دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ خیبر پختون میں انہوں نے اپنے کزن اور سابق صوبائی وزیر صحت شہرام خان ترہ کئی کے ساتھ مل کر ایک الگ گروپ بنا رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے سو دن پورے ہونے سے متعلق تقریب میں جب وزیر اعظم عمران خان اپنا معروف ’’چکن فارمولا‘‘ بیان کر رہے تھے تو اس دوران عاطف خان اور شہرام ترہ کئی یہ کہتے ہوئے تقریب سے چلے گئے کہ اس طرح کی باتوں سے پارٹی کا مذاق بنتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More