دہشت گردوں نے پنجاب-خیبر پختون کے سرحدی علاقے میں ٹھکانے بنالئے

0

نمائندہ امت
صوبہ پنجاب اور خیبرپختون کے سرحدی ایریا کوہ سلیمان میں واقع ذرہ کوڑا میں مختلف کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں نے ٹھکانے بنا لئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی افرادی قوت میں خاصی کمی آچکی ہے، اس لئے انہوں نے آپس میں اتحاد کرلیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق کوہ سلیمان کے دشوار گزار قبائلی علاقے ذرہ کوڑا میں اندر تک رسائی خاصی مشکل ہے، لیکن امکان ہے کہ وہاں موجود دہشت گردوں کی تعداد پچاس سے 80 کے درمیان ہے۔ جمعرات کی صبح ان دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کی مڈبھیڑ میں انتہائی مطلوب دہشت گرد حاکم مارا گیا۔ جبکہ سیکورٹی اہلکار طاہر شہید ہوا۔ بارڈر ملٹری پولیس کے شہید اہلکار محمد طاہر قیصرانی کی لاش دشوار گزار اور مشکل راستہ ہونے کی وجہ سے کل جمعہ کی صبح واپس لائی جاسکی۔ اس علاقے میں بارڈر ملٹری پولیس کے علاوہ رینجرز اور دیگر فورسز کے اہلکار بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے اب وہاں دہشت گردوں کی محدود تعداد باقی رہ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں اور قومی اداروں کے خلاف سرگرم مختلف گروپوں سے ہے۔ رینجرز کو اپنے ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ ذرہ کوڑا کے علاقے میں ریاست کے یہ دشمن موجود ہیں اور دہشت گردی کی کسی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس اطلاع پر رینجرز کی دو گاڑیوں نے مزید معلومات کے حصول اور آپریشن کے حکمت عملی طے کرنے کیلئے اس علاقے کا رخ کیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق یہ پنجاب اور خیبر پختون کا سرحدی علاقہ ہے اور قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے پنجاب پولیس کے بجائے بارڈر ملٹری پولیس کے زیر کنٹرول ہے۔ جب رینجرز کے اس طرف جانے کے اطلاع بارڈر ملٹری پولیس کو ملی تو اس کے چار اہلکار بھی اس طرف روانہ ہوگئے۔ تاہم راستے میں ہی دہشت گردوں نے اچانک رینجرز پر حملہ کردیا۔ جس کا جواب رینجرز اہلکاروں نے بھرپور قوت سے دیا۔ اس جوابی حملے میں پہاڑ کی اوٹ اور بلندی کے باوجود ایک دہشت گرد شدید زخمی ہوگیا، جس کو زندہ پکڑنے کے لئے کرنل ایوب نے بہادری اور جرأت سے اس کا تعاقب کیا۔ جب زخمی دہشت گرد نے دیکھا کہ وہ بچ نہیں سکتا، تو اس نے کرنل ایوب اور ان کے ساتھیوں پر ہینڈ گرینیڈ پھینک دیا۔ جس سے کرنل ایوب، سپاہی احسان اور فاروق زخمی ہوگئے۔ انہیں فوری طور پر تونسہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال پہنچایا گیا اور بعدازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ ملتان منتقل کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق کرنل ایوب کے چہرے، سینے او ٹانگوں پر گہرے زخم آئے ہیں۔ رینجرز، باڈر ملٹری پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان کافی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ اس دوران بارڈر ملٹری پولیس کا اہلکار طاہر قیصرانی گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوا اور موقع پر ہی شہید ہوگیا۔ دشوار گزار پہاڑی علاقے سے طاہر قیصرانی شہید کی میت واپس لانے میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ جبکہ علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کا بھی امکان تھا۔ اس لئے سیکورٹی فورسز احتیاط سے آگے بڑھیں اور یہ علاقہ کلیئر کرایا، جس کے بعد شہید کی میت کل جمعہ کی صبح واپس لائی گئی۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق اس پہاڑی قبائلی علاقے میں اب بھی دہشت گرد موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان میںکالعدم تنظیموں ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ بعض انتہائی مطلوب جرائم پیشہ افراد بھی وہاں روپوش ہیں۔ سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے گئے دہشت گرد حاکم کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے تھا اور وہ متعدد مقدمات میں سیکورٹی فورسز کو مطلوب تھا۔ تمام دہشت گرد جدید اسلحے سے لیس تھے، جن کا بارڈر ملٹری پولیس کے جوانوں اور رینجرز نے بہادری اور جرأت سے مقابلہ کیا۔ کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس کنور اعجاز سالک رزاقی کے مطابق ان دہشت گردوں کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلی پنجاب محمد عثمان بزدار کا تعلق بھی اسی علاقے کی تحصیل تونسہ سے ہے۔ گزشتہ دنوں اپنے آبائی علاقے کے دورے کے دوران انہوں نے ملٹری بارڈر پولیس کی حوصلہ افزائی کی تھی اور اس علاقے میں تیز رفتار گاڑیوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس ڈولفن فورس کو تعینات کرنے کے احکامات بھی صادر کئے تھے، تاکہ اس دشوار گزار پہلاڑی علاقے میں مجرموں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کی جاسکے۔ تھانہ واہو وا کے ڈیوٹی آفیسر امان اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شہید اہلکار کی میت واپس لانے میں مشکل پیش آرہی تھی، کیونکہ یہ اونچے پہاڑوں اور گہری کھائیوں والا انتہائی مشکل علاقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں موجود دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد زیادہ تر صوبہ خیبر پختون کے علاقے میں رہتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے بعد اس پہاڑی سلسلے میں روپوش ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More