س: پھر کیا ہوا؟
ج: آپ کو تو اس بات کا علم ہے کہ یہاں ایک فراڈیا وکیل تھا قاضی سلیم۔ جو جے یو آئی (جمعیت العلمائے اسلام) کا تھا۔ وہ سی آئی ڈی کا بھی کام کر رہا تھا۔ اس کے گھر میسن روڈ پر ان 54 آدمیوں کی میٹنگ ہوئی۔ سلیم نے اس کی ساری کارروائی گورنمنٹ کو دے دی تھی۔ اس میٹنگ میں ولی خاں بھی آئے۔ دولتانہ بھی تھے۔ سارے ممبر تھے۔ وہاں یہ مسئلہ ڈسکس ہوا۔
س: کیا ڈسکشن ہوئی؟
ج: ڈسکشن کے وقت انہوں نے ہمیں اٹھا دیا تھا۔
س: نان ممبر ہونے کی وجہ سے؟
ج: ہاں، وہاں صرف ممبر ہی تھے۔ نان ممبر ایک بھی نہ تھا۔ اس میں کیا فیصلہ ہوا، یہ مجھے نہیں معلوم۔ لیکن اس میں مجیب الرحمن کی تجویز ضرور زیر غور آئی۔ آگے کیا ہوا۔ دولتانہ صاحب یکم مارچ یا 29 فروری یا 28 فروری (1971ئ) کو کراچی سے ڈھاکہ جارہے تھے۔ جس وقت جہاز میں بیٹھے، ایک آدمی ان کے پاس آیا کہ صدر صاحب (جنرل یحییٰ) کہتے ہیں کہ میں بھی ڈھاکے جارہا ہوں، اکٹھے چلیں گے، بعد دوپہر۔ دولتانہ صاحب اتر آئے۔ بارہ بجے اجلاس کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔ اعلان نہیں ہوا تھا، یحییٰ خاں کا بیان پڑھا گیا تھا۔
س: اجلاس کے التوا کا اعلان ہوتے ہی مشرقی پاکستان میں شدید ہنگامے شروع ہوگئے۔ پھر یہاں سے جنرل یحیٰی خاں ڈھاکے گئے۔ اور بھی سیاسی لیڈر گئے، جن میں میاں ممتاز دولتانہ بھی تھے۔ اس CRISIS (بحران) کے موقع پر مجیب کے ساتھ میاں دولتانہ صاحب کی ملاقات بھی ہوئی۔ اس کی کوئی روداد انہوں نے بتائی کہ مجیب کے ساتھ ان کی کیا گفتگو ہوئی تھی۔
ج: جب ممتاز دولتانہ صاحب واپس آئے تو انہوں نے مجھے یہ بات بتائی کہ ملک غلام جیلانی، جو فری لانسر ہے، ایئر پورٹ پر ہمیں لینے کے لئے آئے۔ اخباری نمائندے بھی تھے۔ میں نے کہا، میاں صاحب اصل بات بتائیں کہ کیا ہوئی۔ کہنے لگے، اصل بات تو یہ ہے کہ ایسٹ پاکستان جا رہا ہے۔ خدا ہی بچا لے تو بچالے۔ یہ بات ختم ہوگئی۔ پھر مجھے ملے شوکت حیات۔ ان سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم مجیب الرحمن کے پاس گئے۔ مجیب الرحمن سے ممتاز دولتانہ نے سیدھا سوال کیا، شیخ صاحب آپ نے پاکستان کو ایک رکھنا ہے یا پاکستان دو رکھنے ہیں۔ اگر آپ نے پاکستان کو توڑنا ہے تو پھر ہمارے بس میں نہیں کہ ہم آپ کو بچالیں۔ ہم چلے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان ایک رکھنا ہے، پھر بیٹھ کے اشوز پر بات کرلیں۔ مجیب الرحمن نے کہا، میاں صاحب، میں پاکستان کیسے توڑ سکتا ہوں۔ جس نے اپنی جوانی پاکستان موومنٹ میں گزاری ہوئی ہے۔ میں پاکستان کیسے توڑ سکتا ہوں۔ میں پاکستان ایک رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ہم نے اسے کہا کہ یحییٰ خاں کہتے ہیں کہ آپ دو اسمبلیوں والی جو تجویز ہے واپس لیں۔ مجیب الرحمن نے کہا، میاں صاحب جس نے یحییٰ خاں کو یہ تجویز دی ہے، وہ واپس لے۔ میں کیسے واپس لوں۔ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں۔ کہتے ہیں، ہم نے پھر یحییٰ خاں سے بات چیت کی۔ گفتگو جاری رہی۔
س: مجیب کا مطلب تھا کہ بھٹو نے یہ تجویز پیش کی ہے، وہی واپس لیں۔
ج: شوکت حیات کہتے ہیں کہ ہم نے یحییٰ خاں کو جاکے بتادیا تھا۔
س: ایک بات ہے، اتنا کچھ ہوا مجیب انڈیا نہیں بھاگا۔ یا تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انہیں گرفتار کرلیں گے، یا موقع نہیں ملا، یا پھر وہ بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ج: شوکت حیات کہتے ہیں کہ مجیب نے اپنا آدمی بھیج کے ہمیں اپنے گھر بلا بھیجا۔ مجیب الرحمن (میاں دولتانہ سے) کہنے لگا، میاں صاحب! حالات خراب ہیں۔ ملٹری ایکشن ہونے والا ہے۔ آپ واپس چلے جائیں۔ آپ میرے دوست ہیں۔ میں نے جہاز میں آپ کی سیٹوں کا انتظام کر دیا ہے۔ جہاز جانے والا ہے۔ ساتھ ہی اس نے کہا، میاں صاحب دوبارہ ہم کبھی نہیں ملیں گے۔ لیکن ملیں گے جنت میں ۔ کیونکہ ہم نے پاکستان بنانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کی تھی۔ اور یہ جو ہمارا فعل ہے یہ ہمیں جنت میں لے جائے گا۔ میاں صاحب میں زندہ نہیں بچ سکتا۔ میری موت لازمی ہے۔ یا ہندوستان کے ہاتھوں، یا پاکستانی فوجوں کے ہاتھوں۔ اگر میں چاہوں تو میں اب بھاگ سکتا ہوں۔ بوڑھی گنگا کے پیچھے چلا جاؤں تو مجھے یحییٰ خاں کا باپ بھی نہیں پکڑ سکتا۔ لیکن فیصلہ یہ کرنا ہے کہ میں محب وطن کی حیثیت سے مرا ہوں یا غدار کی حیثیت سے مرا ہوں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کے ہاتھوں محب وطن کی حیثیت سے مروں گا۔ میں ہندوستان سے مل کر غدار کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ لہٰذا میں بھاگوں گا نہیں۔
س: سردار شوکت حیات نے یہ ساری باتیں آپ کو کب بتائیں۔
ج: یہ شوکت حیات نے مجھے مارچ 71ء میں بتائیں۔
س: بنگلہ دیش بن گیا۔ مجیب الرحمن اس کے وزیر اعظم ہوگئے۔ پھر ایک مختصر سی خبر چھپی نوائے وقت میں کہ سردار شوکت حیات نے شیخ مجیب سے ملاقات کی ہے؟
ج: پاکستان ٹوٹنے کے بعد جو نامی گرامی لیڈر مجیب الرحمن سے ملا ہے وہ شوکت حیات ہیں۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ آئین (73ء کا) بن گیا۔ آئین نافذ ہونے والا تھا۔ دولتانہ صاحب سفیر ہوکے لندن جاچکے تھے۔ ایک روز شوکت حیات نے مجھے بتایا کہ میں ڈاکٹر کی ہدایت کے تحت جارہا ہوں۔ پتہ نہیں انہوں نے سنگاپور کہا یا کوالالمپور یا تھائی لینڈ۔ تھائی لینڈ جارہے تھے۔ میں نے شوکت حیات سے کہا کہ سردار صاحب نے واپس آکے پھر مسلم لیگ میں آنا ہے، کیوں کہ اب آئین کے تحت اسمبلی کی ممبری اور سفارت ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔ آپ میاں صاحب سے پوچھیں کہ آیا انہوں نے سیاست کرنی ہے۔ اگر سیاست کرنی ہے تو اسمبلی کی ممبری رکھنی ہے۔ پھر سفارت چھوڑنا ہوگی۔ اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو ایک ریزولیوشن پاس کراتے ہیں ورکنگ کیمٹی سے کہ میاں ممتاز دولتانہ کو CALL FOR (طلب) کیا گیا ہے کہ وہ واپس آئیں۔ کیوں کہ میاں صاحب ہماری اجازت سے گئے ہوئے ہیں۔ فارمل ریزولیوشن ہوا تھا۔ وہ پھر جب واپس آجائیں گے تو ان کی عزت بھی بڑھے گی اور جماعت کی بھی۔ اگر وہ نہیں آنا چاہتے تو پھر ٹھیک ہے۔ موج میلہ کریں۔ شوکت حیات کہنے لگے، ان کے ساتھ بات نہیں ہو سکتی۔ ٹیلی فون ٹیپ ہوتا ہے۔ میں نے کہا، سردار صاحب آپ بینکاک جارہے ہیں، وہاں سے انہیں ٹیلی فون کرلینا۔ اگر وہ کہہ دیں کہ ہاں میں نے واپس آنا ہے، تو پھر آپ مجھے صرف ایک ٹیلی گرام دیدینا GO AHEAD (اجازت ہے)۔ اس پر میں ریزولیوشن پاس کرا دوں گا کہ میاں صاحب واپس آئیں۔ مجھے شوکت حیات کہتے ہیں، مجھے وہاں فراغت ہوگی؟ میں نے کہا، آپ وہاں تفریح کے لیے چلے ہیں۔ وہاں آپ نے کیا ہل چلانے ہیں؟ کہنے لگے وہ جو نوّے ہزار انڈیا کی جیلوں میں ہیں، ان کا نہیں کوئی سربند کرنا۔ میں نے کہا، آپ نے وہاں جا کے ایک ٹانگ پرکھڑے ہو کے وظیفہ کرنا ہے۔ بات ختم ہوگئی، سردار صاحب چلے گئے۔
واپس آکے مجھے انہوں نے بتایا کہ میں مجیب الرحمن سے مل کر آیا ہوں۔ کہنے لگے مجیب سے ملنے کا خیال مجھے یہاں سے آیا کہ سید افضلؒ بنگلہ دیش کی جیل میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کی نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی۔ جیل سے ان کی لاش ان کی بوڑھی بیوہ اور بیٹیاں لائیں۔ مجھے یہ خبر پڑھ کے بہت دکھ ہوا تھا کہ مسلم لیگ کے ایک صدر کا اخیر اس طرح ہو۔ سید افضلؒ کی موت کا پڑھ کے میں بھٹو صاحب کے پاس گیا۔ میں نے ان سے ذکر کیا کہ یہ صورت حال ہے۔ آپ انٹرنیشنل لیول پر اسے ٹیک اپ کریں۔ وہاں پاکستانی آدمی ختم ہو رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کا جواب تھا کہ سردار صاحب، یہ آپ مسلم لیگیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ میری پرابلم نہیں۔ جب میں بنکاک میں تھا تو میں نے اخبار میں پڑھا کہ مجیب الرحمن سرکاری دورے پر جاپان جارہا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجیب الرحمان سے مل کر کہوں کہ تو یہ کیا کر رہا ہے۔ بنکاک میں پاکستان کا سفیر ہے عبدالغفور۔ سردار نشترؒ کا بھائی۔ میں اس کے پاس پہنچا کہ مجیب الرحمان سے میری ملاقات کراؤ۔ چنانچہ میں نے مجیب الرحمان کو پیغام بھیجا کہ آپ جاپان جارہے ہیں، آپ کے ساتھ ملاقات ہونی چاہئے۔ اس کے جواب میں مجیب الرحمان نے اپنا بیٹا بھیج دیا۔ میں نے کہا اگر وہ کہیں تو میں بھی جاپان چلا جاتا ہوں۔ کسی چکر میں ملاقات کی صورت پیدا ہونی چاہیے۔ مجھے مجیب الرحمان کا میسج ملا کہ آپ فلاں دن کوالالمپور ایئرپورٹ پر شام کے سات بجے پہنچ جائیں۔ کوئی آدمی آپ کو میرے پاس لے آئے گا۔ میری بیوی ساتھ تھی۔ میں نے اُسے کہا کہ میں ذرا سنگاپور ہو آؤں۔ میں بجائے سنگاپور کے کوالالمپور پہنچ گیا۔وہاں میں ائیرپورٹ پر بیٹھا رہا۔ بنگلہ دیش کے سفارت خانے کا ایک آدمی آیا جو مجھے جانتا تھا۔ وہ مجھے بنگلہ دیش کے سفارت خانے لے گیا۔ کسی پچھلے کمرے میں لے گیا۔ وہاں مجیب الرحمان بیٹھا تھا۔ مجھے ملا اور دھاڑیں مار کر رویا۔ میں بھی رویا۔ خیر تھوڑا سنبھلے۔ مجھے اس نے کہا، سردار صاحب، میرے پاس کیا لینے آئے ہو۔ میرے پاس چھوڑا کیا ہے۔ میرے پلے کیا ہے، جو لینے آئے ہو۔ میں نے اسے کہا، مجیب الرحمان! کیا ناظم الدینؒ تیرا لیڈر نہیں تھا؟ کیا خیر الدین تیرا لیڈر نہیں تھا؟ کیا سید محمد افضلؒ تیرا لیڈر نہیں تھا۔ کہنے لگا یہ سب میرے لیڈر تھے۔ میں نے اسے کہا، تجھے شرم نہی آتی سید محمد افضلؒ جیل میں مرجائے اور اس کی بیٹیاں اس کی لاش اٹھانے آئیں۔ اس کی لاش اٹھانے کے لئے کوئی آدمی نہ ہو۔ ڈوب مر۔ لعنت ہے تجھ پر۔ سردار آدمی تو اسی طرح کا ہے نا۔
س: بات کھل کے کرتے ہیں۔
ج: بات کھل کے کرتے ہیں۔
س: جس طرح ہم عام بول چال میں انہیں دیکھتے ہیں۔
ج: ہاں بالکل اسی طرح باتیں کرتے ہیں۔ کھلا ڈلا آدمی ہے۔
س: لیڈروں کے ساتھ بھی۔
ج: ہاں لیڈری شیڈری اس میں کوئی نہیں۔ اس کی ایک ہی تو ہمیں چیز پسند ہے۔
س: اچھا پھر!
ج: مجیب نے کہا، سردار صاحب، بڑا پریشر ہے انڈیا کا۔ میں نے اسے کہا، اس صورت میں تجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ اس نے کہا، سردار صاحب جو ہو سو ہو، میں جاتے ہی پہلا حکم یہ دوں گا کہ سارے قیدی رہا۔ دیکھا جائے گا جو ہوگا۔ جس وقت یہ بات ہوگئی تو تیسری بات میں نے ان قیدیوں کی کی، جن کا ٹرائل بنگلہ دیش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا، سردار صاحب بات یہ ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری زندگی میں ان قیدیوں کا کوئی ٹرائل نہیں ہوگا۔ لیکن پریشر ہے۔ آپ بے فکر رہیں کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے کاموں کو نپٹانے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری زندگی میں ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ آپ اصل کام کریں۔ جا کے بھٹو سے کہیں کہ ہمیں ہندوستان کھا گیا۔ آپس میں تجارت کی کوئی صورت پیدا کریں۔ بنیا بیٹھا ہوا ہے، بنکاک میں۔ بنیا بیٹھا ہوا ہے، سری لنکا میں ۔ وہ آپ سے آرڈر وصول کرتا ہے اور ہمارے آگے دگنی قیمت پر مال بیچتا ہے۔ کوئی براہ راست تجارت کی صورت پیدا کریں۔ رہ گیا یہ سوال کہ سامان تقسیم کریں، نہ آپ کے پلے کچھ ہے نہ ہمارے کچھ پلے ہے۔ لینا ہم نے کیا ہے دینا آپ نے کیا ہے۔ آپ فی الحال نہ کہیں کہ نہیں دینا۔ مجھے پتہ ہے آپ کے پلے بھی کچھ نہیں، آپ نے کیا دینا ہے۔ کہتے رہو کہ مذاکرات کرتے ہیں۔ اگر کبھی دینا پڑے تو ٹوٹے پھوٹے دو ٹینک، دو ٹرک بھیج دینا۔ ہم لے لیں گے۔ لیکن وقت تو نکالیں۔ کسی طرح ہم ہندوستان سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اصل بات تو یہ ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post