عظمت علی رحمانی
سی این جی بحران سے سندھ بھر میں ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ صوبے کے تمام 630 سے زائد سی این جی اسٹیشن غیر معینہ مدت کیلئے بند ہونے کے باعث ہزاروں بسیں، کوچز اور ویگنیں سڑکوں پر نہیں آسکیں، جس کے باعث طلبہ، آفس و فیکٹری ملازمین اور مزدور، جن میں گھروں پر کام کرنے والی ماسیاں بھی شامل ہیں، کو انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب رکشہ و ٹیکسی والے لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر منہ مانگا کرایا وصول کرتے رہے۔ اس ضمن میں خصوصاً 9 سیٹر رکشہ اور چنگ چی والوں کی چاندی ہوگئی اور کئی روٹس پر کرایوں میں ڈبل اضافہ کردیا گیا۔
واضح رہے کہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی کراچی سمیت سندھ بھر میں قائم سی این جی اسٹیشن غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ فنی خرابی کے باعث گیس میسر نہ ہونا بتائی جارہی ہے۔ ادھر سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کو سپلائی سسٹم میں گیس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اسی سبب گیس فیلڈ سے متواتر سپلائی میں کمی ہو رہی ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی نے کیپٹو پاور (گیس سے بجلی بنانے والے کارخانے) کو بھی گیس کی فراہمی معطل کر دی ہے۔ ترجمان ایس ایس جی سی کے مطابق مختلف گیس فیلڈز میں فنی خرابی کی وجہ سے ایس ایس جی سی کو مطلوبہ گیس کی مقدار میسر نہیں ہو رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور اندرون سندھ میں سردی بڑھنے کے سبب گیس پریشر میں غیر متوقع کمی ہو گئی ہے، جس کے باعث کیپٹو پاور کو گیس سپلائی معطل کی جا رہی ہے۔ سوئی سدرن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سردیوں میں سندھ اور بلوچستان میں گھریلو صارفین کی طلب 3 گنا بڑھ جاتی ہے۔
معلوم رہے کہ سندھ بھر میں 360 سے زائد سی این جی اسٹیشن قائم ہیں۔ جہاں سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ہفتے میں 3 روز (پیر، بدھ اور جمعہ) گیس کی بندش کی جاتی تھی۔ تاہم اب غیر معینہ مدت کیلئے گیس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ سندھ بھر کے مذکورہ سی این جی اسٹیشن پر یومیہ 20 لاکھ کلو گرام سی این جی فراہم کی جاتی تھی، جہاں سے پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں، کوچوں، رکشوں اور ٹیکسیوں سمیت گاڑیوں میں گیس کی فلنگ کرائی جاتی ہے۔ مذکورہ سی این جی کی بندش سے فلنگ اسٹیشنز پر کام کرنے والے ہزاروں افراد کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔ جبکہ 7 ہزار سے زائد بسوں اور کوچوں کا پہیہ بھی جام ہو گیا ہے۔
کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے چیئرمین ارشاد حسین بخاری کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کراچی میں تین دن سے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام شدید متاثر ہے۔ بسیں، منی بسیں اور کوچیں کھڑی ہو گئی ہیں، کیونکہ ان کو گیس ہی نہیں مل رہی۔ ان گاڑیوں پر غریب مسافر ہی سفر کرتے ہیں اور یومیہ ہزاروں طلبہ بھی ان گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں، جو اب سخت پریشان ہیں۔ دکانوں میں کام کرنے والے دیہاڑی داروں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے کہ مہنگے کرائے دے کر وہ سفر نہیں کر سکتے۔ گیس کی بندش سے جہاں عوام کو پریشانی کا سامنا ہے، وہیں ٹرانسپورٹ مالکان کو ذہنی اذیت کا بھی سامنا ہے۔ کیونکہ بیشتر لوگوں کی گاڑیاں قسطوں کی ہیں۔ ایک گاڑی کھڑی ہونے سے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو بھی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ سندھ میں گیس کی فراہمی بحال کی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر پٹرولیم سرور خان سے اپیل کرتے ہیں کہ گیس کمپنی کو، کوئی ٹائم فریم دیں، تاکہ غیر معینہ بندش کی وجہ سے لاحق پریشانی ختم ہو سکے‘‘۔
سی این جی اسٹیشنز کی بندش سے کراچی چیمبر آف کامرس میں سی این جی ایسوسی ایشن کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ جس میں کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اگر جمعہ تک سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے مسئلہ حل نہ کیا گیا تو کمپنی کے ہیڈ آفس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس سراج قاسم تیلی کا کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر پٹرولیم کی یقین دہانی کے باوجود سوئی سدرن گیس کمپنی نے گیس بندش کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ ہم وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے وعدے کی پاسداری کریں اور ایس ایس جی سی کو گیس بندش سے روکیں‘‘۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر جنید ماکڈا کا کہنا ہے کہ ’’گیس بندش سے سی این جی انڈسٹری بند ہوجائے گی۔ حکومت سے اپیل ہے کہ فی الفور گیس کی فراہمی شروع کرائے‘‘۔
معلوم رہے کہ سی این جی اسٹیشنز بند ہونے سے جہاں شہریوں کا مسائل کو سامنا ہے، وہیں حکومت کو بھی یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ٹیکس ریونیو کی مد میں پہنچ رہا ہے۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین شبیر سلیمان جی کا کہنا تھا کہ ’’ہماری سوئی سدرن گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر امین راجپوت سے بات ہوئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ امید ہے 3 روز تک اس بحران پر قابو پا لیا جائے گا‘‘۔ شبیر سلمان جی کا کہنا تھا کہ ایک سی این جی اسٹیشن پر تقریباً 10سے زائد افراد کام کرتے ہیں جو اب بے روزگار بیٹھے ہیں۔
٭٭٭٭٭