امت رپورٹ
کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی کھیل میں جدت کے نام پر اسے برباد کرنے پر تُل گئی ہے۔ کرکٹ میں ٹاس کا ستیا ناس کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جس میں انٹر نیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی ملوث ہے۔ جبکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی)، کرکٹ آسٹریلیا (سی اے) اور نیوزی لینڈ کرکٹ (این زیڈ سی) جیسے کرکٹ بورڈز بھی ٹاس کی 141 سالہ پرانی روایت ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ آئی سی سی نے رواں برس مئی میں تجویز دی تھی کہ ٹیسٹ میچوں کو مزید مسابقتی بنانے کیلئے ’’اوے ایڈوانٹیج‘‘ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں دنیائے کرکٹ کے بڑے بورڈ نے اس امر پر اتفاق کیا کہ مہمان ٹیموں کو بیٹنگ یا فیلڈنگ کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔ لہٰذا یہ تجربہ آسٹریلیا کے دورئہ انگلینڈ کے موقع پر ایشز سیریز 2019 میں کیا جائے گا، جب آسٹریلوی ٹیم وکٹ کا معائنہ کرنے کے بعد خود بیٹنگ یا فیلڈنگ کا فیصلہ کرے گی۔ واضح رہے کہ ایشز سیریز کا آغاز آئندہ برس یکم اگست سے ہوگا، جو 16 ستمبر تک جاری رہے گی۔ ادھر آسٹریلیا کی معروف بگ بیش ٹی 20 لیگ کے منتظمین نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اب ٹاس، سکہ کے بجائے بیٹ اچھال کر کیا جائے گا۔ ٹاس کے نئے طریقہ کار کو ’’بیٹ فلپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس میں ایک بیٹ اچھالا جائے گا اور کپتان ہیڈ یا ٹیل کے بجائے بلز اور فلیٹس پکاریں گے۔ آسٹریلوی اسپورٹس ویب سائٹس کے مطابق ٹاس کیلئے جو بیٹ اچھالا جائے گا، اس کا سائز وہی ہوگا جو بیٹسمین استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ کرکٹ میں ٹاس کیلئے سکہ کے بجائے بیٹ کا استعمال صدیوں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ کرکٹ کے ایک بھارتی ماہر اعداد و شمار موہن داس مینن نے کہا ہے کہ 18 ویں صدی کی روبرٹ جیمز کی ایک پینٹنگ میں ایک بچے کو ٹاس کیلئے بیٹ کو اچھالتے دکھایا گیا ہے۔ ادھر ایم سی سی کے کرکٹ اکیڈمی منیجر این فریسر نے کہا کہ کرکٹ آسٹریلیا کو اس مقصد کیلئے پلائنگ قواعد میں تبدیلی درکار ہوگی۔ قوانین کی رو سے ٹاس کیلئے سکہ اچھالنا ضروری ہے۔ آسٹریلوی مینز ٹی 20 بگ بیش لیگ کے آٹھویں ایڈیشن میں سکے کے بجائے بیٹ اچھالا جائے گا۔ بی بی ایل 2018-19 آج سے تین روز بعد 19 دسمبر کو آسٹریلیا میں شروع ہو رہی ہے۔ بگ بیش کے سربراہ کم میک کونی نے کہا ہے کہ گلی محلے میں کھیلی جانے والی کرکٹ میں یہ عام چیز ہے اور اس کو وہ اب اپنے ایونٹ میں لارہے ہیں۔ کرکٹ آسٹریلیا نے یہ فیصلہ کھیل میں مزید جدت لانے کیلئے کیا ہے۔ ٹاس کے اس نئے تصور پر سابق کھلاڑیوں کی جانب سے اب تک کوئی سخت رد عمل سامنے نہیں آیا ہے، جبکہ مہمان ٹیموں کو اوے ایڈوانٹیج پہنچانے کیلئے ٹاس کا مکمل خاتمہ سابق کرکٹرز کو ناگوار گزرا ہے۔ کرکٹ ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ سابق کھلاڑیوں کی جانب سے سکہ کے بجائے ٹاس کے استعمال پر اس لئے تنقید نہیں کی جا رہی ہے، کیونکہ اس میں کم از کم ٹاس کی روایت برقرار رہے گی۔ تاہم مہمان ٹیموں کو بیٹنگ یا بالنگ کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جانا سابق کھلاڑیوں خصوصاً جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز کیلئے قابل قبول نہیں۔ سابق کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے کرکٹ کا حُسن ماند پڑ جائے گا۔ یہ ایک جینٹل مین گیم ہے، جس میں اسپورٹس مین اسپرٹ انتہائی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ سکہ اچھال کر ٹاس کرنے کی رسم کا آغاز پہلی بار انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 1877ء میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں کیا گیا تھا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ٹاس ختم کرنے کی تجویز کی توجیہ یہ ہے کہ میزبان ٹیم کے مہمان ٹیم پر ایڈوانٹیج کو کم کیا جائے۔ میزبان ٹیم اپنے فائدے کی وکٹ بناتے ہیں، جو اس کے کھلاڑیوں کیلئے سود مند ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کئی بار یک طرفہ میچ ہوتے ہیں۔ بھارت کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی نے کہا ہے کہ انہیں اس تجویز کی سمجھ نہیں آ رہی۔ سب سے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ صدیوں پرانی رسم کے ساتھ کیوں چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔ بھارت ہی کے دلیپ ونگسارکر نے اعتراف کیا کہ وہ کافی مایوس ہیں کہ میزبان ٹیم اپنے فائدے کی وکٹ بناتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ٹاس کی رسم کو ختم کر دینا اس کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکٹ بنانے والوں کا بھی ایک پینل بنا لیا جائے، جیسے نیوٹرل امپائرز اور میچ ریفریز کا پینل ہے۔ تاہم سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ اور اسٹیو وا ٹاس کی رسم کو ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ جبکہ ویسٹ انڈیز کے سابق فاسٹ بالر مائیکل ہولڈنگ کا کہنا ہے کہ مہمان ٹیم کو موقع دینا کہ وہ بیٹنگ یا فیلڈنگ کا فیصلہ کرے، سے اچھا مقابلہ ہو گا۔ سابق پاکستانی کپتان آصف اقبال نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ٹاس کی رسم کو ختم کرنے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر مہمان ٹیم کو میزبان ٹیم کی میزبانی کا موقع ملے گا اور اس کو بھی ہوم سیریز کا فائدہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭