کارخانوں میں کارگزار روبوٹس انسانی ورکرز کے لئے خطرہ قرار

0

ایس اے اعظمی
ماہرین نے کارخانوں میں کارگزار روبوٹس کو انسانی ورکرز کی جان کیلئے خطرہ قرار دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ متعدد واقعات نے ثابت کیا ہے کہ سافٹ ویئر کی خرابی، شارٹ سرکٹ یا دیگر فنی مسائل کے سبب خودکار روبوٹ قریب کھڑے کسی بھی شخص پر ’’حملہ آور‘‘ ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ روبوٹس کے استعمال میں چینی فیکٹریاں سب سے آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں روبوٹس کی 100 سے زائد جارحانہ کارروائیاں ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں۔ تازہ واقعے میں چین کی ایک برتن ساز فیکٹری میں کارگزار مشینی مکینک نے ملازم کے جسم میں دس انچ لمبے 10 عدد اسکریوز گھونپ دیئے۔ ملازم کی چیخیں سن کر کمپیوٹر آپریٹر نے بجلی بند کر کے روبوٹ کو قابو کیا۔ لیکن دو سے تین منٹ کے اس دورانیے میں 47 سالہ ملازم لہولہان ہوگیا۔ لیکن خوش قسمتی سے روبوٹ کے گھونپے گئے اسکریوز اس کے دل اور پھیپھڑوں سے دور رہے، جس کے سبب اس کی جان بچ گئی۔ روبوٹ کی خرابیوں کے ایک اور تازہ واقعے میں امریکی ریاست نیوجرسی کے امیزون ویئر ہائوس میں روبوٹ نے اچانک سیاہ مرچوں کے کین کے پورے کارٹن کو دھماکے سے کھول دیا، جس سے 24 ورکرز کی آنکھوں، ناک اور کان میں سیاہ مرچ گھس گئی اور وہ سخت بیمار پڑگئے۔ امیزون ویئر ہائوس میں اس حادثے کے بعد ایمرجنسی قائم کر دی گئی اور تمام ورکرز کو فی الفور اسپتال میں طبی امداد کیلئے پہنچایا گیا، جہاں انہیں ایک ہفتے کیلئے ایڈمٹ کرلیا گیا ہے۔ امیزون نیوجرسی برانچ کا کہنا ہے کہ حادثے کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ روبوٹ کے سسٹم میں خرابی کیوں پیدا ہوئی؟ واضح رہے کہ تقریبا چار برس قبل امریکہ ہی میں کاریں تیار کرنے والی ایک فیکٹری کے روبوٹ ورکر نے سسٹم میں خرابی کے بعد خاتون ورکر وانڈا ہالبروک کا سر کچل دیا تھا، زخموں کی تاب نہ لاکر وانڈا موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تھی۔ اگرچہ اس حادثے کے دو سال تک بعد کوئی قانونی ہلچل نہیں ہوئی، لیکن 2017ء میں فیکٹری کے خلاف وانڈا کے لواحقین نے ہرجانے کی ادائیگی کا مقدمہ دائر کیا جو تا حال عدالت میں چل رہا ہے۔ لواحقین نے مقدمے میں موقف اختیار کیا ہے کہ جس روبوٹ نے وانڈا کو ہلاک کیا، وہ بے قابو ہوچکا تھا اور اس نے اپنے آہنی ہاتھوں میں پکڑے آلے سے وانڈا کو ہلاک کیا۔ ادھر چینی اور عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیفٹی سسٹم کی عدم موجودگی کے باعث فیکٹریز میں موجود کارگزار روبوٹ نوع انسان کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ 2015ء میں جرمن گاڑیوں کے پلانٹ میں ایک ملازم کو روبوٹ نے اپنے آہنی بازوئوں میں جکڑ کر کچل ڈالا تھا۔ دوسری جانب چینی حکام نے بتایا ہے کہ حادثے کے فوری بعد روبوٹ کے پینلز کی بجلی سپلائی بند کرکے زخمی ملازم کو اسپتال پہنچا دیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کا 6 گھنٹے طویل آپریشن کیا اور تمام اسکریوز جسم سے نکال دیئے۔ لیکن اس پورے آپریشن میں ملازم کو خون کی بیس بوتلیں لگانی پڑگئیں۔ آخری اطلاعات ملنے تک زخمی ملازم کی حالت بہتر تھی اور وہ روبہ صحت تھا۔ چینی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ سینکڑوں مقامی فیکٹریز میں اس وقت ہزاروں روبوٹس کام کررہے ہیں۔ لیکن اب ان روبوٹس کی جانب سے اپنے ساتھ کام کرنے والے انسانی ورکرز پر حملوں کے متعدد واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اب تک ان کی تعداد 100 سے زائد ہوچکی ہے۔ لیکن روبوٹس کی جارحانہ کارروائیوں کا کوئی پولیس ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی قوانین کے تحت کسی روبوٹ کو عدالت کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا اور جرمنی کی فیکٹریز میں روبوٹس کے حملوں میں دو افراد کی ہلاکت نے روبوٹس کی قاتلانہ کارروائیوں کے حوالے سے سوالات اُٹھائے ہیں کہ آیا روبوٹ کے کنٹرولنگ سسٹم میں کسی خرابی کے نتیجے میں انسانوں کی سیفٹی کا کوئی نظام مرتب کیا گیا ہے؟
رہے کہ فیکٹریوں میں روبوٹس کی آمد کے بعد اب چین،امریکا ،روس سمیت برطانیہ بھی افواج میں روبوٹ سپاہیوں اور گاڑیوں کی تعیناتی کیلئے کوشاں ہیں لیکن روبوٹس کے مسلسل حادثات کو دکھتے ہوئے سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیا روبوٹ واقعی انسانوں کیلئے خطرہ ہیں یا نہیں؟
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More