نجم الحسن عارف
سابق اولمپین حنیف خان نے 14 ویں ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی پر یہ تبصرہ کیا کہ موجودہ ٹیم میں اکثریت شادی شدہ اور بڑی عمر کے کھلاڑیوں کی ہے، اس لیے وہ ہاکی کے میدان میں بار بار مات کھا رہے ہیں۔ حنیف خان کے اس بیان پر کافی لے دے بھی ہو رہی ہے کہ کیا کھلاڑیوں سے اچھا رزلٹ لینے اور پاکستان میں ہاکی کا عروج واپس لانے کیلئے کھلاڑیوں کی شادیوں پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ بعض کے خیال میں یہ ایک غیر منطقی بات ہے، جو سابق اولمپیئن نے کی ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں حنیف خان سے تفصیلی بات چیت کی، جس میں انہوں نے اپنے مؤقف پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت قومی ہاکی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے آٹھ سے دس پلیئر شادی شدہ ہیں اور ان کی عمر 28 سے 33 سال تک ہے۔ اس لیے ان سے ہاکی کے میدان میں اچھی پرفارمنس کی توقع رکھنا ہی غلط ہے۔ ان کے بقول پاکستانی ہاکی ٹیم پچھلے تقریباً 20 برس سے اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ڈومیسٹک سطح پر ہاکی کھیلی ہی نہیں جا رہی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہاکی نظر انداز کر دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کو ہاکی فیڈریشن پر اعتماد نہیں رہا۔ پچھلے تین برسوں کے دوران 80 سے 90 کروڑ روپے فیڈریشن کو ملے، لیکن پتہ ہی نہیں کہ وہ رقم کہاں گئی، کون کھا گیا۔ اب فیڈریشن کو خود مستعفی ہو کر گھر چلے جانا چاہئے، اسی میں اس کی عزت ہو گی۔ بجائے اس کے کہ اسے گھر بھجوا دیا جائے۔
’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے حنیف خان نے کہا کہ …’’جب تک ہم ہاکی میں تھے، قومی ٹیم میں شادی شدہ کھلاڑی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے اور جو شادی شدہ تھے وہ بھی ورلڈ کلاس اور عالمی سطح پر مانے ہوئے کھلاڑی ہوتے تھے۔ لیکن اب معاملہ ہی مختلف ہے۔ موجودہ قومی ٹیم میں آٹھ سے دس شادی شدہ کھلاڑی ہیں۔ ٹیم کے دونوں گول کیپر شادی شدہ ہیں۔ رائٹ اور لیفٹ ہاف بھی گھر بسا چکے ہیں۔ رائٹ اِن اور لیفٹ اِن بھی شادی شدہ ہیں۔ جبکہ لیفٹ آئوٹ اور سینٹر فارورڈ بھی حتیٰ کہ سینٹر ہاف توصیف بھی شادی شدہ ہے۔ ایسے میں آپ کیسے توقع رکھیں کہ یہ کھلاڑی آپ کو ورلڈ کپ لاکر دیں گے یا اولمپک جیتیں گے۔ یہ ایک خواب ہی ہو سکتا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں سابق اولمپئن نے کہا کہ ’’قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی عمریں 28 سال سے لیکر 32 اور 33 سال تک ہیہں۔ بدقسمتی سے نئے لڑکے ہاکی کی طرف آہی نہیں رہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاکی میں پیسہ نہیں ہے۔ نہ ہی حکومت کی اس جانب توجہ ہے، اسی وجہ سے ڈومیسٹک ہاکی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جب تک اسکول و کالج کی سطح پر ہاکی کو فروغ نہیں دیا جائے گا، قومی سطح پر اچھی ٹیم بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آج سے ہی ڈومیسٹک لیول کی ہاکی کیلئے فیڈریشن سنجیدہ ہو جائے تو سو دو سو نئے لڑکے ہاکی کو دستیاب ہو جائیں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب قومی ہاکی ٹیم کھیلنے کیلئے جارہی تھی تو اس وقت بھی سب جانتے تھے کہ یہ ٹیم فزیکلی فٹ ہی نہیں ہے۔ اگر فٹنس کا معاملہ بہتر ہوتا تو یقیناً ہاکی ٹیم بہتر رزلٹ دیتی۔
اس سوال پر کہ کیا اس صورت حال میں ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی شادیوں پر پابندی لگا دینی چاہئے؟ حنیف خان نے کہا کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ شادیوں پر پابندی لگائیں، نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیم کو نیا خون ملے۔ اس مقصد کیلئے ڈومیسٹک لیول کی ہاکی کو زندہ کیا جائے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایسا ہو گا تو نئے لڑکوں کی بہت بڑی تعداد سامنے آنا شروع ہو جائے گی۔ جب سینکڑوں لڑکے ٹیم میں کھیلنے کے لیے تیار ہو رہے ہوں گے تو پھر کسی کی شادی پر اعتراض کا موقع رہے گا نہ اس کیلئے کوئی قواعد بنانا پڑیں گے۔ اصل مسئلہ شادیاں نہیں بلکہ ڈومیسٹک ہاکی پر فیڈریشن اور حکومت کی توجہ کا نہ ہونا ہے۔ جو اب ہاکی کی حالت کر دی گئی ہے اس میں ہاکی فیڈریشن عزت کے ساتھ خود گھر جانے کی تیاری کرے۔ بصورت دیگر اسے گھر بھیج دینا چاہئے‘‘۔
اس سوال پر کہ ماضی میں بھی تو شادی شدہ کھلاڑی ہاکی ٹیم میں رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ورلڈکپ اور اولمپک جیتنے کے دنوں میں بھی شادی شدہ کھلاڑی ہوتے تھے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اکا دکا شادی شدہ کھلاڑی تو ہوتے تھے۔ جیسی آج کل ہے، ایسی بھرمار نہیں تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وہ چند شادی شدہ کھلاڑی عالمی سطح پر مانے ہوئے اور نامور کھلاڑی تھے۔ جب 1984ء میں اولمپک ہوئے تو اس سے صرف چھ ماہ قبل حسن سردار کی شادی ہوئی تھی۔ لیکن اس کا کوئی خاص اثر حسن سردار کی کارکردگی پر نہیں ہوا تھا۔ پھر کلیم اللہ اور منظور جونیئر ایسے بڑے نام بھی ساتھ تھے۔ اس زمانے میں بہت بڑے بڑے کھلاڑی ہونے کے باوجود کھلاڑیوں کی عمریں موجودہ ٹیم کے پلیئرز جتنی نہیں تھیں۔ 1982ء میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تو اختر رسول کی عمر 28 سال کے قریب تھی۔ ایسا طریقہ وضع کرنا چاہئے کہ ملک بھر میں مقامی سطح کی ہاکی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہاکی پر توجہ دی جائے۔ جس کے بعد قومی کھیل کو تواتر کے ساتھ نیا خون ملتا رہے گا۔ جو کھلاڑی شادی کی عمر کو پہنچے گا یا شادی وغیرہ کے بعد اچھی پرفارمنس دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا اس کی جگہ نئے لوگ جگہ لینے کے لیے موجود ہوں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکولوں میں ہاکی پر توجہ دی جاتی تھی۔ کالجوں کی ہاکی ٹیمیں ہوتی تھیں، کلب کی سطح پر ہاکی کھیلی جاتی تھی۔ ضلعی اور صوبائی سطح پر ہاکی کھیلی جاتی تھی۔ انڈر 16 اور انڈر 19 ٹیموں کا رواج تھا۔ اب یہ سب موجود نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ یہ فیڈریشن اور ٹیم مینجمنٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ مقامی سطح پر ہاکی کے فروغ کیلئے دلچسپی لیں؟۔ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، ذمہ داری تو ہے، مگر کرے کون، فیڈریشن پر تو لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کو اعتماد ہی نہیں رہا ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت اسے مزید فنڈز دینے کو آمادہ نہیں ہے۔ اگر کوئی اولمپئن کوچ بھی ٹیم کو دستیاب ہو تو کوئی بہتری نہیں آسکتی۔ اصل مسئلہ نئے لڑکوں کو ہاکی کی طرف لانے کا ہے۔ دنیا میں ہاکی کھیلنے والے کھلاڑیوں کی عمر عام طور پر 18 سال سے 26 سال تک ہوتی ہے۔ پاکستان بھی اگر چاہتا ہے کہ ایک ورلڈ کلاس ٹیم بنانی ہے تو اس کے لیے اسی ’’ایج گروپ‘‘ کو ٹیم کیلئے ممکن بنانا ہو گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا ہاکی ٹیم کے ارکان کی بیگمات بھی دوروں پر ساتھ جاتی ہیں؟۔ سابق اولمپئن نے کہا ایسا بالکل نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی اکثریت جس ایج گروپ میں ہے وہ عالمی سطح پر ہاکی کھیلنے کی عمر سے آگے جاچکی ہے۔ ماضی میں گوجرہ ہماری قومی ہاکی کی اہم نرسری تھی۔ لیکن اب کہیں بھی ہاکی کا مستقبل نظر نہیں آتا۔ اگلے دس سال میں ہاکی میں پاکستان کی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم آج سے مقامی سطح پر ہاکی کی حوصلہ افزائی کا ماحول بنائیں۔ اس سے ہم ورلڈ چیمپئن بننے یا اولمپک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اس مقصد کیلئے نئے لڑکوں کو باور کرانا پڑے گا کہ ہاکی میں بھی پیسہ ہے، عزت ہے، شہرت ہے۔ پھر نئے لڑکے آئیں گے۔
٭٭٭٭٭