وجیہ احمد صدیقی
اپوزیشن کے دبائو نے حکومت کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حوالے سے بیک فٹ پر آنے پر مجبور کر دیا، اور بالآخر اس نے قائد حزب اختلاف و نون لیگی صدر شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے کا گرین سگنل دیا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی حلقے میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر روایت کے مطابق قائد حزب اختلاف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کے حامی تھے۔ جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور پی این پی مینگل بھی اس کی حامی تھیں۔ ذرائع کے بقول حکومت کو یہ خطرہ ہوا کہ اس معاملے پر کہیں یہ جماعتیں الگ نہ ہو جائیں اور سیاسی بحران بڑھ جائے۔ جبکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان قربت بھی بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو چیئرمین پی اے سی بنانے کی حکومتی پیشکش بھی ٹھکرا دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے نوجوان وزرا جن میں فواد چوہدری، مراد سعید اور عامر کیانی پیش پیش ہیں، اب بھی شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے مخالف ہیں۔ لیکن حکومت اس مسئلے کی وجہ سے ضروری قانون سازی نہیں کر پا رہی اور کئی معاملات التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس مسئلے کو شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر نے بھانپ لیا تھا کہ آگے چل کر حکومت کیلئے کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی اے سی کی چیئرمین شپ پر تحریک انصاف میں تقسیم سامنے آئی ہے۔ نوجوان وزراء جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہیں، جبکہ سینئر سیاست سیاسی روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ کاروبار حکومت خوش اسلوبی سے چلایا جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے اس کھیل سے دور ہیں، فی الحال ان کی دلچسپی خارجہ امور، وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور دفاعی معاملات تک محدود ہے۔ البتہ انہوں نے شہباز شریف کو یہ رعایت ضرور دلوا دی ہے کہ ان کی قید نظربندی میں تبدیل کردی گئی ہے۔ وہ اپنے گھر میں ہی قید ہیں۔ لیکن اسمبلی میں آنے کی وجہ سے ان کی قید علامتی ہی رہ گئی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کی نامزدگی پر ساڑھے تین ماہ سے کشیدگی تھی، جس کے نتیجے میں اپوزیشن حکومت کو ایوان میں سرکاری کاروبار نہیں چلانے دے رہی تھی۔ تاہم اب یہ کشیدگی ختم ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم سمیت پی ٹی آئی کے بیشتر ’’ہارڈ لائنر‘‘ شہباز شریف کو کسی صورت چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ دوسری جانب اپوزیشن اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ حکومت نے اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کے اتحاد کے سامنے حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ذرائع کے بقول اسپیکر نے وزیراعظم کو باور کرایا کہ شہباز شریف کو چیئرمین بنائے بغیر ایوان کی کارروائی چلانا ممکن نہیں۔ جس کے بعد عمران خان نے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کیلئے گرین سگنل دے دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیب مقدمات کے پیش نظر اخلاقی تقاضا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے چیئرمین پی اے سی بننے پر ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے جو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے حالیہ دور حکومت کے حسابات کی جانچ پڑتال کرے۔ وزیر خارجہ نے مجالس قائمہ کی تشکیل کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں تعطل دور کرنے کیلئے متحدہ مجلس عمل سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا موقف تھا کہ نیب کے الزامات کے باوجود عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور پرویز خٹک وزیر دفاع۔ تو پھر اپوزیشن لیڈر چیئرمین پی اے سی کیوں نہیں بن سکتے۔ جب شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کا اعلان ہوا تو اس کے بعد شہباز شریف نے کہا کہ یہ پارلیمانی روایات ہیں کہ اپوزیشن لیڈر ہی چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہوتا ہے۔ حکومتی اقدام سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔ جب صحافیوں نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ اس موقع پر کس کی پسپائی ہوئی اورکون پیچھے ہٹا؟۔ شہباز شریف نے کہا کہ اس میں کسی کے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کی بات نہیں۔ حکومت کے اس اقدام سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔ ان سے مزید سوال کیا گیا کہ کیا اس اقدام سے ایوان کا ماحول بہترہوگا؟ شہباز شریف نے اس کا جواب دینے سے گریزکیا۔ واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے قائد حزب اختلاف کو پی اے سی کا سربراہ نہ بنانے کی صورت میں کسی بھی کمیٹی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان اور وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری متعدد بار کہہ چکے تھے کہ وہ کسی طور پر بھی شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے، کیونکہ ان کیخلاف نیب کے مقدمات ہیں۔ تحریک انصاف حکومت یہ موقف بھی اختیار کرتی رہی ہے کہ چونکہ گزشتہ حکومت مسلم لیگ نواز کی تھی۔ تو شہباز شریف کیسے اپنی ہی حکومت کے خلاف آڈٹ پیراز کی چھان بین کرسکیں گے؟۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اگر سابق حکومت کے آڈٹ پیرا کی باری آئے گی تو وہ اس اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭