عام بنگالی مسلمان بہت محب وطن تھے

0

عبدالحفیظ عابد
صوبے دار (ر) عبدالغفور آرائیں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت میں دو برس تک جنگی قیدی رہے۔ مشرقی پاکستان میں دو سالہ پوسٹنگ کے دوران انہیں کیا مشاہدات ہوئے؟ اس حوالے سے عبدالغفور آرائیں سے کا انٹرویو نذر قارئین ہے۔
س: عبدالغفور صاحب آپ نے کب آرمی میں شمولیت اختیار کی اور کہا ں کہاں خدمات سرانجام دیں؟
ج: میں فوج میں جھنگ سے 21 جون 1966ئکو بھرتی ہوا تھا اور 28سال تک خدمات انجام دیں ۔کراچی میں ٹریننگ کی لاہور، ملتان، حیدرآبا د، ٹیکسلا اور جی ایچ کیو میں رہا۔ مشرقی پاکستان میں 2 سال تعینات رہا۔ وہاں بھارت میں دو سال جنگی قیدی کی حیثیت سے گزارے۔ سعودی عرب میں ان کی فوج کی تربیت کیلئے جو مشن کیا ہوا تھا، اس کے ساتھ رہا۔ سب سے اہم اور دلچسپ سفر مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے وقت رہا۔ کراچی سے بحری جہاز میں سوار ہوئے، 10دن کا سفر تھا، ہر طرف پانی ہی پانی۔ کبھی عرشے پر جا کر بیٹھ جاتے مگر چکر آنے لگتے، جی خراب ہونے لگتا تو پھر نیچے آکر لیٹ جاتے۔ کافی خستہ حال ہو کر چٹا گانگ پہنچے اور بڑی سی ریل کے ذریعے ڈھاکہ پہنچے۔
س: آپ سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے لیکن 28 سال بعد صوبیدار ہی بن سکے اور ریٹائر ہوگئے؟
ج: دراصل ہوا یہ کہ میری حماقت سمجھیئے کہ میں نے تحریری درخواست دے دی تھی مجھے پروموشن نہیں چاہیئے، میں ریٹائرمنٹ چاہتا ہوں۔ مگر صوبیدار کے رینک کیلئے جتنا عرصہ کی ملازمت ضروری ہے وہ مجھے کرنی پڑی۔ یعنی ترقی تو نہیں ملی ریٹائرڈ بھی نہیں کیا گیا۔ لیکن تین سال اضافی ملازمت کرنا پڑی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس رینک تک اعزازات کے ساتھ وقت گزارا اور اہم مقامات پر نہایت ذمہ داری کی خدمات انجام دیں۔20 ستمبر 1997ء کو میری ملازمت مکمل ہوگئی تھی اور میرے سرٹیفکیٹ میں EXEMPLARY ریمارکس دیئے گئے تھے۔ میری صحت بھی اچھی تھی۔ ٹیکنیکل مہارت بھی بہت تھی، اس لئے مجھے سول ملازمت کیلئے نہایت موزوں قرار دیا گیا تھا۔ لیکن میں نے کوئی ملازمت نہیں کی اور وہاڑی کے چک نمبر 12 دمبلوجی میں میرے خاندان نے جو چند ایکڑ زمین خریدی تھی اس پر گزارہ ہے۔ سروس کے دوران بھی اور بعد میں بھی کبھی کوئی لالچ نہیں کیا۔ کفایت شعاری اختیار کی ہے اس لئے وقت ٹھیک گزر رہا ہے۔1947ء میری تاریخ پیدائش ہے، تقریباً 70سال گزر گئے ہیں اب کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے ۔
س: فورسز کے جو افسران اور جوان بھارت کی قید میں رہے، رہائی کے بعد ان کی تو بڑی پذیرائی ہوئی ہوگی۔ بڑی مراعات دی گئی ہوں گی شاید آپ نے زرعی زمین بھی اسی سے بنائی ہو؟
ج: (مسکراتے ہوئے) میں جب جنگی قیدی تھا تو 100روپے تنخواہ ملتی تھی۔ شادی کے سال بھر بعد میری مشرقی پاکستان پوسٹنگ ہوگئی تھی۔ بھرتی کے وقت میں نے اپنا پتہ ضلع نواب شاہ کا دیا تھا۔ میں اپنی اہلیہ کو بھی ڈھاکہ بلالیا تھا مگر جنگی حالات پیدا ہونے کے بعد فورسز کی فیملیز کو واپس بھیجا جارہا تھا تو میری بیگم بھی بذریعہ ہوائی جہاز کراچی اور پھر اپنے خاندان کے پاس چلی گئی تھی، پھر میری تنخواہ بھی انہیں ملنے لگی اور اس نے 10ہزار کی رقم جمع کر کے دو ایکڑ زمین خریدی۔ مجھے تو کس طرح کی مراعات کا علم نہیں، ہاں واپسی پر لاہور میں جن افسران کی ڈیوٹی تھی وہ استقبال کیلئے موجود تھے لیکن وہاں عام لوگوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ اپنے ہم وطنوں کی اپنے قیدی فوجی بھائیوں کیلئے بے چینی اور جذبے کو دیکھ کر میری آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ (ان کی اہلیہ بولیں ہاں مجھے یاد ہے کہ لاہور سے انہیں شلوار قمیض کا ایک نیا جوڑا ضرور پہنا کر بھیجا گیا تھا)۔
س: آپ فوج کی کس کور میں تھے اور کیا سمجھتے ہیں کہ کہاں آپ کی اہم تعیناتی ہوئی؟
ج: میں فوج آرڈینس کور میں رہا جس کی ذمہ داری ہے کہ پوری فوج کو خوارک اور تیل کے سوا سوئی سے لے کر ٹینک تک ہر طرح کا اسلحہ ان کے آلات پرزے تمام ضروریات خریدے اور فراہم کرے یوں میں نے چھوٹے رینک میں ہونے کے باوجود فوجی اسلحہ کے حوالے سے تین چار اسپیشل کورسز کر رکھے تھے۔ میرا سروس ریکارڈ بھی بہت اچھا تھا مگر مجھے میری خواہش کے بغیر مختلف مشنز میں شامل کیا گیا۔ میری جہاں بھی جس حیثیت میں بھی تعیناتی ہوئی، وہاں پوری محنت اور صبح سے رات تک کام کیا ہے۔ افسران بھی جو تعینات ہوئے تھے وہ بھی کئی چیزیں معلوم کرنے کوارٹر پر آتے تھے۔ ٹیکسلا میں تین سال میری تعیناتی رہی جہاں آرڈینس فیکٹری میں چینی ساختہ کے ٹی 59 ٹینک تیار ہوتے تھے اس کے پرزے چین سے پیکنگ میں آتے تھے اور یہاں ان کی اسمبلنگ کر کے ٹینک تیار ہوتے تھے۔
س: آپ کی مشرقی پاکستان میں تعیناتی ہوئی تو اس وقت ہماری فوسز میں سہولتوں کا کیا حال تھا کیونکہ جلد ہی بھارت نے سازشیں کر کے پاکستان پر جنگ مسلط کردی تھی؟
ج: مشرقی پاکستان میں فوجی سہولتوں کا بھی فقدان تھا۔ وہاں ہماری فوج کی تعداد بھی ایک ڈویژن سے شائد کچھ زائد ہی تھی۔ میں جب ڈھاکہ چھائونی پہنچا تو وہاں دو منزلہ فوجی بیرکیں ابھی نئی بنی تھیں۔ پرانی بہت محدود تھیں اسلئے جب میں نے درخواست دی کہ میں اپنی اہلیہ کو بھی لانا چاہتا ہوں تو مجھے اجازت کے ساتھ گاڑی بھی الاٹ ہوگئی۔
س: مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے افسران کے آپس میں کیسے تعلقات تھے کیا آپ نے بھی ان کے رویوں میں دوری محسوس کی؟
ج: مغربی پاکستان سے جو بڑے افسران جاتے تھے وہ مقامی فوجیوں سے ایسا رویہ اختیار کرتے تھے جیسے کہ وہ تیسرے درجے کے انسان ہوں۔ لیکن عام مغربی پاکستانی فوجیوں اور مشرقی پاکستانی فوجیوں میں تعلقات بہت اچھے ہوتے تھے۔ میں نے اپنے بارے میں بنگالی سپاہیوں اور جے سی اوز کا بھی کوئی منفی رویہ محسوس نہیں کیا اور ہم بھی یکساں احترام کرتے تھے۔
س: آپ ڈھاکہ شہر میں جاتے ہوئے عام بنگالی عوام کا غیر بنگالی فوجیوں کے ساتھ کیسا رویہ محسوس کرتے تھے ؟
ج: ہم بازار جاتے تھے ضرورت کی اشیا خریدتے تھے اور خاص طور پر کنڈی والا گنا بھی خرید کر لاتے تھے کبھی کوئی منفی رویہ محسوس نہیں کیا۔ عام بنگالی مسلمان بہت اچھے اور محب وطن تھے میں نے وہاں غربت سے بھی کچھ آگے بڑھ کر دیکھا۔ لوگوں کے تن پر پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے اکثر کے جسم پر پرانے اور ناکافی کپڑے نظر آتے تھے۔ ضرور وہاں خوشحال لوگ بھی ہوں گے، مگر ان کی تعداد بہت کم تھی، اکثریت غریب تھی۔
س: 1970ء کے عام انتخابات کے دوران آپ مشرقی پاکستان میں تھے اس وقت کیسے حالات تھے؟
ج: میں جب مشرقی پاکستان گیا تو اس وقت عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری تھیں، لیکن حالات پر امن تھے۔انتخابات ہمارے ساامنے ہی ہوئے وہاں کوئی ایسی بدامنی جھگڑے یا فساد کا ماحول نہیں تھا۔ جلسے جلوس ہوتے تھے جن میں مجیب کے حامی بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن کی باتیں اور نعرے بنگالی عوام کیلئے بڑے پرکشش تھے۔ اس لئے انہوں نے اکثریت میں اسے ووٹ دیئے اور اپنی طرف سے اقتدار کا حقدار قراردیا۔ چونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اس لئے مجیب نے ہی اکثریت حاصل کی۔ مگر بعد میں جو حالات پیدا ہوئے وہ سب کو علم ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں۔
س: کہا جاتا ہے کہ امن کے دور میں اور انتخابات کے دوران خصوصاً مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور وہاں آباد اردو بولنے والوں کے ساتھ بنگالیوں کا بڑا خراب اور نفرت انگیز رویہ تھا؟
ج: قطعی نہیں یہ بات غلط ہے، ہم نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا۔ وہاں تعلیم بہت زیادہ تھی مسجد اور مکتب بڑی تعداد میں ایک ساتھ قائم تھے۔ اس لئے ان میں تعلیم کے ساتھ دینی رحجان بھی زیادہ تھا، وہ کوئی نفرت کا جذبہ نہیں رکھتے تھے۔ ہاں جب جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا تو ضرور بنگالیوں میں منفی رویہ بھی پیدا ہونے لگا۔
س: جب بھارت سے جنگ شروع ہوئی تو کیسے حالات تھے آپ کہاں تھے؟
ج: باقاعدہ جنگ تو ہفتہ دس روز ہی ہوئی۔ پہلے تو جھڑپیں سرحدی علاقوں میں یا اندرونی مخصوص علاقوں میں ہو رہی تھیں۔ بھارت نے جب کھلا حملہ کیا تو پھر جنگ پھیل گئی۔ پاکستان کے پاس کھلی جنگ کے لئے فوج کی نفری سمیت وسائل نہیں تھے۔ عوام بھی خلاف ہو چکے تھے۔ ان حالات میں میری اہلیہ فوجی اسپتال میں زچگی کیلئے داخل تھیں۔ میں تین روز اسے دیکھ نہیں سکا۔ میری بڑی بیٹی وہیں پیدا ہوئی اسپتال کا سب عملہ بھی جا چکا تھا۔ اس وقت ڈھاکہ شہر میں بھی حالات خراب ہو چکے تھے، جانی نقصان بھی ہو رہا تھا۔
س: جس روز پلٹن میدان میں جنرل نیازی اور جنرل اروڑا نے سرنڈر دستاویز پر دستخط کئے کیا، آپ لوگ وہاں موجود تھے کیا صورت تھا؟
ج: پلٹن میدان میں اس وقت بہت کم تعداد میں پاکستانی فوج کے افسران تھے۔ باقی ابھی اپنے اپنے تعیناتی مقامات پر تھے پھر ان کیلئے سرحد کے قریب کیمپ قائم کئے گئے تھے جہاں انہیں بھارت لے جانے کیلئے جمع کیا گیا۔ ہمیں بریلی بھارتی چھائونی لے جایا گیا جو غالباً اتر پردیش کہلاتا ہے اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
س: مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا کیا کردار رہا۔ پاکستان نے بھی فورسز کی مدد کیلئے البدر و الشمس کے نام سے محب الوطن نوجوانوں کی تنظیم، بھارتی فورسز کے مقابلے کیلئے تیار کی تھی؟
ج: مکتی باہنی بھارتی تربیت یافتہ تھی۔ اس میں ہندو اور انتہا پسند بنگالی مسلمان، دونوں شامل تھے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے اس نے پاکستان کو توڑنے میں مجیب الرحمان اور انتہا پسندوں کی بھرپور مدد کی۔ بنگالی پاکستانیوں سے ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی مغربی پاکستان کے حکمران بااختیار طبقات، بنگالیوں پر مسلسل ظلم کرتے رہے۔ بنگالی عوام کا حق صحیح طور پر دیا جاتا تو مجیب اور بھارت انہیں گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے تھے۔
س: سرنڈر کے بعد بھارتی کیمپ میں کن حالات سے گزرنا پڑا بھارتی فوجیوں کا پاکستانی قیدیوں کے ساتھ کیسا رویہ رہا؟
ج: سرنڈر کے بعد ہمیں بریلی لے جایا گیا۔ یہ بھارت کی چھائونی ہے پاکستانی فوجی قیدیوں کی یہاں ویسے تو بڑی تعداد تھی مگر ہماری بیرک میں 100کے قریب قیدی تھے۔ بھارتی فوج نے اردگرد نگران چوکیاں قائم کر رکھی تھیں جو مرحلہ وار تھیں۔ کڑی نگرانی کی جاتی تھی تمام قیدیوں کو صرف پی او ڈبیلو لکھے ہوئے کپڑے پہننے کی اجازت تھی۔ سب قیدیوں سے کہا گیا کہ وہ فاضل سامان جمع کرائیں۔ دن میں ہم بیرک میں آزاد ہوتے تھے کھیل اور باہر نکلنے کا وقت بھی مقرر تھا۔ لیکن رات کو بیرک کو تالا لگادیا جاتا تھا۔ ہفتے وار ہمیں کہا جاتا تھا کہ جن افراد نے اپنا سامان جمع کرا رکھا ہے وہ جاکر اسے دیکھ لیں نکال کر دھوپ لگوائیں تاکہ خراب نہ ہوجائے۔ کھانے میں سبزی اچھے معیار کی ہوتی تھی جب کہ گوشت ملتا تھا تو وہ بھی معیاری ہوتا تھا۔ لیکن صبح صرف چائے دی جاتی تھی اور دوپہر کو شاید دو دو روٹی ملتی تھی۔ میں تو ایک روٹی ہی عام طورپر کھاتا تھا اور خصوصاً روٹیوں کے ٹکڑے جوکچے ہوتے تھے وہ اتار کر رکھ لیتا یہ خشک سوکھے ٹکڑے صبح چائے سے کھانے میں کام آتے تھے۔
س: کبھی بھارتی افسر بھی پاکستانی قیدیوں کی بیرکس کا دورہ کرتے تھے ان کا رویہ کیا ہوتا تھا کیا وہ نفرت کرتے تھے؟
ج: بھارتی افسر ایسا کرتے تھے۔ کبھی کسی سے سوال بھی کر لیتے تھے۔ جو بھارتی فوجی گارڈ ہوتے تھے، کڑی نگرانی کرتے تھے۔ بات بھی کم ہی کرتے تھے دور رہتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ ہوا کہ ایک گارڈ نے ہمارے ایک ساتھی سے اس کی مرضی سے بوٹ لے لئے تو جب دوسرے گارڈ کو پتہ چلا تو اس نے اپنے ساتھی کو براہ راست گولی ماردی جس سے وہ مر گیا اور پھر گولی مارنے والے کو بھی سزا ہوئی۔ ہمارے ساتھیوں کی غالب اکثریت نے
بہت بہادری سے بھارتی کیمپوں میں قید کاٹی کچھ اپنے خاندانوں کو یاد کر کے بعض مرتبہ پریشان بھی ہوجاتے تھے۔ جنہیں ہم کہتے تھے کہ تمہارے خاندانوں کا پاکستان میں خیال رکھنے والے بہت ہیں۔ رہائی پر بھارتی حکام نے جمع شدہ سامان سب کو واپس کردیا اور بذریعہ ٹرین تمام پاکستانی فوجی لاہور پہنچے۔ مشکل ایام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک گزر گئے۔(بشکریہ تکبیر)

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More