ساڑھے 8ارب کی ادھار گندم کا اسکینڈل دبانے کیلئے مافیا سرگرم

0

کراچی (رپورٹ : ارشاد کھوکھر)ساڑھے 8ارب کی ادھار گندم کا اسکینڈل دبانے کیلئے مافیا سرگرم ہو گئی ہے ۔ اس ضمن میں رقم واپسی کی مدت میں 6 ماہ کا اضافہ کرنے کی تیاری کر لی گئی ۔ واضح رہے کہ ادھار گندم پر سندھ حکومت پہلے ہی سوا 4 ارب روپے کی سبسڈی برداشت کر چکی ہے۔ عدم ادائیگی کے باعث سندھ حکومت پر سود کی مد میں ماہانہ 7 کروڑ روپے کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ خوراک کے حکام نے گزشتہ سیزن کے دوران گندم کے زیادہ سے زیادہ ذخائر نکالنے کی پالیسی کے تحت مختلف فلور ملوں کے مالکان کو 19 ارب روپے سے زائد کی گندم 6 ماہ کی ادھار بھی دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کے پاس گندم کی 100 کلو گرام کی بوری تقریباً 4 ہزار روپے میں پڑتی ہے، گزشتہ سیزن کے دوران 100 کلو گرام گندم کی بوری کی قیمت اجراء تقریباً 3250 روپے ہونے کے باعث ادھار پر دی گئی گندم بھی انہی نرخوں پر دی گئی ،جس کے باعث حکومت سندھ کو گندم کی مد میں سوا 4 ارب کی سبسڈی بھی برداشت کرنا پڑی، جس میں 6 ماہ کے لئے بینک کو ادا کردہ سود کے 66 کروڑ روپے بھی شامل ہیں۔ کیوں کہ محکمہ خوراک جو بھی گندم خریدتا ہے اس کے لئے بینکوں سے قرضہ لیتا ہے۔ اور جو گندم فروخت کی جاتی ہے اس سے حاصل ہونے والی رقم قرضہ کی ادائیگی کے لئے جمع کرائی جاتی ہے، جبکہ گندم پر جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ رقم حکومت سندھ محکمہ خوراک کو ادا کرتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 6 ماہ کے لئے ادھار پر دی گئی گندم کی رقم کی واپسی کی مدت اکتوبر کے وسط تک تھی، مقررہ مدت تک 19 ارب روپے سے زائد رقم میں سے محکمہ خوراک کو تقریباً ساڑھے 10 ارب روپے واپس ملے، مذکورہ مد میں گھوٹکی، سکھر، خیرپور اضلاع کی فلور ملوں کے مالکان نے تاحال تقریباً ساڑھے 8 ارب روپے واپس نہیں کئے۔ مقررہ مدت تک مذکورہ رقم نہ ملنے کے باعث گزشتہ دو ماہ کے دوران حکومت سندھ پر مذکورہ رقم پر تقریباً 10 کروڑ روپے سود کا بوجھ بڑھ گیا اور اب بینکوں کے سود کی سالانہ شرح ساڑھے 6 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہونے کے باعث ساڑھے 8 ارب روپے پر ماہانہ سود کی مد میں تقریباً 7 کروڑ روپے کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خوراک جس کو گندم کی رقم نہیں مل رہی، وہ گندم محکمہ کے افسران ملی بھگت کر کے پہلے ہی ہڑپ کر چکے ہیں۔ مئی 2018ء میں سندھ حکومت کے خاتمے کے پیش نظر محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا نے خورد برد کردہ گندم کو بھی ادھار گندم میں شامل کر کے ریکارڈ میں خانہ پری کر لی۔ اور الیکشن نتائج کے بعد کمیشن مافیا مطمئن ہو گئی کہ اب ان کا اثر و رسوخ برقرار رہے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ گھپلوں میں محکمہ خوراک کا ایک سابق ڈائریکٹر سرفہرست رہا ہے، رقوم واپس نہ کرنے والے فلور ملز مالکان انہی کے منظور نظر رہے ہیں۔ مذکورہ افسر کی تعیناتی اب محکمہ خوراک میں نہیں ہے لیکن آج بھی عملی طور پر ان کا اثر و رسوخ جاری ہے اور محکمہ خوراک کے اعلیٰ افسران ہر معاملہ میں عملی طور پر ان کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔ محکمہ خوراک مذکورہ سابق ڈائریکٹر کی کوشش ہے کہ گھپلوں کو چھپانے کے لئے ادھار پر دی گئی گندم میں سے جو ساڑھے 8 ارب روپے تاحال واپس نہیں ہوئے ہیں، انہیں ری شیڈول کر کے واپسی کی مدت میں 6 ماہ کا اضافہ کیا جائے تاکہ یکم اپریل 2019ء میں گندم کے نئے سیزن کا آغاز ہو تو اس دوران جو نئی گندم خریدی جائے اس کی آڑ میں مذکورہ اسکینڈل کو چھپا لیا جائے اور مافیا کو نئی گندم کی خریداری پر کمیشن بٹورنے کا موقف فراہم کر کے ملی بھگت سے نئی خریدی جانے والی گندم کم خرید کر کے ریکارڈ میں ہدف کے مطابق ظاہر کیا جائے۔ اس ضمن میں چند روز قبل رابطہ کرنے پر سیکریٹری خوراک محمد راشد نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ مقررہ مدت میں گندم کی رقم واپس نہیں ملی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح رقم وصول ہو جائے تاکہ خزانے کو نقصان نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ری شیڈول کے متعلق ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہو گا بھی تو مقررہ مدت کے بعد رقوم واپس کرنے والوں کو سود کی رقم بھی ادا کرنا ہو گی، اس سلسلے میں حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کام میں کسی غیر متعلقہ شخص کی مداخلت نہیں ہے ویسے بھی وہ جنوری میں ریٹائر ہو رہے ہیں، اس ضمن میں مزید موقف جاننے کے لئے گزشتہ روز بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن فون اٹینڈ نہ ہونے کے باعث ان سے مزید بات چیت نہیں ہو سکی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More