اسلام آباد( رپورٹ: اخترصدیقی) سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالتی تاریخ میں پہلی باران کیمرہ کے بجائے کھلی عدالت میں سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے تمام ججزکے گھروں کی تزئین وآرائش کے حوالے سے سی ڈی اے ،پی ڈبلیو ڈی سمیت دیگر اداروں کا ریکارڈطلب کرنے سمیت دائر درخواستیں خارج کردی ہیں ۔درخواست گزار علی انورگوپانگ نے حلف دیتے ہوئے اپنا بیان جمع کرایاہے جس پر آج منگل کوجسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامدخان ایڈووکیٹ باقاعدہ جرح کا آغاز کریں گے ۔سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے ریمارکس دیے کہ ہم نے کون سا غلط اختیارات کا استعمال کیا، کسی کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکنا چاہتے، جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے کارروائی کیسے چلانی ہے، آپ کی مرضی سے کارروائی نہیں چلنی، ہم نے انصاف کرناہے اور ہمارے پاس جومعاملہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ہم نے ایک انصاف فراہم کرنے والے جج کوانصاف دیناہے سپریم جوڈیشل کونسل سے کئی محترم ججز بری ہوتے ہیں، ہم کسی کے لیے متعصب نہیں ، آگے جا کر جواب دینا ہے، اللہ کے حضور جا کر منہ کالا نہیں کرانا۔ہم کب اپنے اختیارات سے تجاوزکررہے ہیں ۔سپریم جوڈیشل کونسل کاکام انکوائری کرناہے ۔ٹرائل شروع ہوچکاہے شواہدکی بنیادپرفیصلہ کریں گے ۔انھوں نے یہ ریمارکس پیر کودیے ہیں ۔کھلی عدالت میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبرا ن نے سماعت شروع کی تواس دوران کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس میان ثاقب نثارنے کہاکہ ہم نے تین دن میں اس کافیصلہ کرناہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش پر دائر کیا گیا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی صدارت میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع کی ۔ جوڈیشل کونسل کے ممبران میں چیف جسٹس بلوچستان، اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ بھی شامل ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ جوڈیشل کونسل میں میں کیا کارروائی ہونی ہے، کیا شواہد ریکارڈ ہونے ہیں ؟ جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں شواہد ریکارڈ ہونے ہیں، وکیل نے کہا کہ موکل کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک درخواست میں الزامات سے متعلق ریکارڈ لگایا گیا ہے، درخواست میں اعلی عدلیہ کے گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا گزشتہ سات سال کا ریکارڈ مانگا ہے، جو ججز سرکاری گھر کے ساتھ رہائشی الاوٴنس لے رہے ہیں وہ ریکارڈ بھی مانگا ہے، وکیل نے کہا کہ ججز کے سرکاری گھروں پر تزئین و آرائش کے اخراجات کا ریکارڈ مانگا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو طول نہیں دینا چاہتے، جو الزامات ہیں ان کی روشنی میں جواب دیں، یہ ریکارڈ منگوانے کا کوئی مقصد نہیں ہے، کسی مخصوص جج کا بھی درخواست میں ذکر نہیں ہے، کسی جج کا ذکر ہوتا تو ریکارڈ منگواتے۔وکیل نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی لاکھوں روپے تزئین و آرائش کرانے کا الزام ہے، دوسرے ججز کے سرکاری گھروں پر اٹھنے والے اخراجات کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کرتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انکوائری کا دائرہ اختیار اتنا وسیع نہیں ہوتا،سرکاری گھر کے تزئین و آرائش کے اخراجات کی لسٹ کو کونسل طے کرے گی، ٹرائل شروع ہو چکا ہے شواہد کی روشنی میں فیصلہ کریں گے۔وکیل نے کہا کہ ہماری دوسری درخواست ریفرنس کے شکایت کنندگان سے متعلق ہے، شکایت کنندگان کے خلاف فوجداری اور عدالتی مقدمات کا ریکارڈ منگوایا جائے، دیکھا جائے کہ جب یہ گھر شوکت عزیز صدیقی کو الاٹ ہوا اس وقت کیا حالت تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے شواہد ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ریفرنس میں براہ راست الزامات معزز جج پر لگائے گئے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے مانگے گئے ریکارڈ کا ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں،جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے الزامات بے بنیاد ہیں، وکیل نے کہا کہ سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کرنا جرم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الزامات پر شواہد نہیں آئے تو کونسل کی کارروائی ختم کر دیں گے۔اٹارنی جنرل پاکستان خالدجاویدخان نے جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے ججزبارے ریکارڈمانگنے کی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ جب ایک سول ملازم کوکسی وجہ سے سزادی جاتی ہے یااس کے خلاف کسی عدالت مین درخواست دی جاتی ہے تومعاملہ میں صرف اس کی حدتک کاروائی کی جاتی ہے سب کونہیں بلایاجاتادیگر ججزکااس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اس معاملے میں صرف جسٹس شوکت صدیقی کی حدتک کاروائی کوآگے بڑھایاجائے سی ڈی اے یاپی ڈبلیوڈی سے ریکارڈمنگوانے کی ضرورت نہیں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی موقع پر ہمیں محسوس ہوا کہ ریکارڈ کاطلب کیاجانا ضروری ہے اور ناگزیرہے تو پھر ضرور طلب کریں گے فی الوقت اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کی ریکارڈ فراہمی کیلئے درخواستیں مسترد کر دی گئیں جس کے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے کئی محترم ججز بری ہوتے ہیں، ہم کسی کیلیے متعصب نہیں ہیں، آگے جا کر جواب دینا ہے، اللہ کے حضور جا کر منہ کالا نہیں کرانا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ شواہد کی ریکارڈنگ کا عمل شروع کریں۔ جسٹس صدیقی کے وکیل نے کہا کہ مجھے جرح کے لیے وقت دیں، کونسل اپنی کارروائی ایک روزکے لیے ملتوی کردے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں،جرح نہیں کرتے، ہم تو چاہتے ہیں کسی کے خلاف کیس نہیں تو وہ بری ہو۔کوشش کررہے ہیں کہ باقی کے خلاف بھی معاملات کوجلدسے جلدمکمل کرکے فیصلہ دیا جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف گواہ علی انور گوپانگ عدالت میں پیش ہوئے۔ گواہ علی انور گوپانگ کا بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی۔