نواز شریف پر غلام اسحاق خان کے بڑے احسانات رہے

0

قسط نمبر 10

اقبال احمد خان کا نام شاید آج کی نسل نہ جانتی ہو۔ لیکن پرانے لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ تب قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ آنے والے برسوں میں اقبال احمد خان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور کئی دہائیوں تک یہ ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ وہ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر تک پاکستان کے تمام اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ سر تا پا پاکستانی اور مسلم لیگی تھے۔ دبنگ۔ نڈر۔ دیانت دار اور بلا کے ذہین۔ اقبال احمد خان سے منیر احمد منیر نے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ جو کتاب ’’اس نے کہا‘‘ کے نام سے 1996ء میں شائع ہوا۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)۔

س: عام تاثر بھی یہی ہے کہ 90ء میں نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے والے تھے غلام اسحاق خاں اور جنرل اسلم بیگ یا فوج۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ غلام اسحاق خاں ان کے اتنے درپے ہو گئے؟
ج: یہی تو چیز ہے جو نواز شریف کے متعلق تجزیہ کرنے والی ہے۔ میرے علم میں ہے۔ ساری دنیا کے علم میں ہے کہ اسے وزیر اعظم بنانے میں اسحاق خاں کا اور (جنرل) حمید گل کا ہاتھ تھا۔ حمید گل نے آرمی کو قابو کیا ہوا تھا۔ اسحاق خاں نے سارا کچھ کیا۔ اس کی سرپرستی کی۔ اور غلام اسحاق خاں نواز شریف کے بڑے سخت حامی تھے۔ جب آخری دنوں میں بڑی گڑبڑ تھی، اس کا بھائی شہباز شریف مجھے ملا۔ اپریل (93ئ) میں۔ میں نے اسے کہا، یار سارے جھگڑے چھوڑو۔ جاکے گھر بیٹھو دونوں تینوں بھائی، اپنے فیملی ممبرز کے ساتھ۔ سوچو، تجزیہ کرو کہ وہ اسحاق خاں جس نے آپ کو مالی طور پر استحکام دیا، وہ آپ کے خلاف کیوں ہوگیا۔
س: مالی طور پر استحکام؟
ج: اسحاق خاں فنانس منسٹر جو تھے۔ ساری صنعتیں انہوں نے واپس دیں۔ قرضے دیئے۔ انہیں پائوں پر کھڑا کرنے والا اسحاق خاں ہے۔ میں نے کہا، پھر آپ کو وزیر اعظم اس نے بنایا۔ وہ آپ سے ناراض کیوں ہوا۔ سوچو جاکے۔ آپ کو جواب مل جائے گا۔ اصل میں جی، میں نے آپ کو مثال جو دی ہے۔ ’’کون ہے؟‘‘، ’’نور محمد پرانا میٹر ریڈر‘‘۔ ’’اسے کہو میں فارغ نہیں‘‘۔ اگر وہی نور محمد دوبارہ پوسٹ ہو جائے تو پھر مطلب برآری۔ میں نے آپ کو بتایا نہیں کہ جاگیردار اور سرمایہ دار کی نفسیات کیا ہے۔ جاگیردار تحکم دیتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے INTEREST (مفاد) کو واچ کرتا ہے۔ وہ بوقت ضرورت گدھے کو بھی باپ بنا لیتا ہے۔ وہ کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایک محاورہ استعمال ہوتا ہے، یار کاروباری بات چھوڑ، سیدھی بات کر میرے ساتھ۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے کہ کاروباری بات میں مطلب پرستی ہوتی ہے۔ ’’یار تو بڑا BUSINESSMAN LIKE ہے‘‘۔ جس کا معنی بنتا ہے، خود غرضی۔ کاروباری ذہنیت، کاروباری ذہنیت۔
س: میاں صاحب نے 17 اپریل 93ء کو تقریر میں کہا تھا کہ میرے وزیر اعظم بننے کے ایک ہفتہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خاں کے ساتھ میرا اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ میں اسلام آباد سے چیف کمشنر کا عہدہ ختم کرنا چاہتا تھا، جو بلا ضرورت تھا۔ صدر غلام اسحاق خاں نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے تو لگتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اختلاف کی ابتدا صدر غلام اسحاق خاں کی طرف سے ہوئی۔
ج: آپ کسی AUTOCRAT (مطلق العنان) ذہن کے آدمی کو تاریخ میں دیکھیں۔ ہر آٹو کریٹ اپنے محسن کو ہٹانا چاہتا ہے۔ آپ پاکستان کو چھوڑیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کو دیکھیں۔ کیونکہ آٹوکریٹ نفسیاتی مریض ہوتا ہے کہ مجھے تو اس نے بنایا ہے۔ یہ مرے تو میری انڈی پنڈنس ہو۔
س: نواز شریف اور غلام اسحاق خاں کے اختلاف میں آپ کسے زیادہ قصور وار کہیں گے۔
ج: میاں نواز شریف کا رویہ جو ہے اس میں TOLERANCE (برداشت) نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی باہمی عزت کرنا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا۔ ایک دوسرے کے نظریات کو سننا۔ یہ اس میں نہیں۔ مسلم لیگ میں جو گڑبڑ ہوئی ہے، وہ اس کے رویے کی وجہ سے ہوئی۔
س: لیکن چوہدری شجاعت حسین، اعجازالحق اور کئی لوگ جو ان کی ہائی کمان میں ہیں، انہیں میاں صاحب نے کیسے برداشت کیا ہے؟
ج: جناب، اس نے نہ کبھی معاف کرنا ہے شجاعت حسین کو، نہ اس نے معاف کرنا ہے اعجاز الحق کو۔ اعجازالحق وزیر بن گیا۔ ایک آدھ اس نے اختلاف کی بات کی۔ وزیر رہا اخیر دم تک، محکمے سارے اس سے لے لیے۔ وہ دے دیئے میاں زمان کو، منسٹر آف دی اسٹیٹ کو۔
س: اس ضمن میں ان کی اخبارات میں بیان بازی بھی ہوتی رہی۔
ج: اعجازالحق کو کوئی اختیار نہیں تھا۔ تھرو آئوٹ۔ کئی ان کی میٹنگیں ہوئیں۔ کئی بار اس نے وعدہ کیا، لیکن ایفا نہ کیا۔ اس واسطے اس کے ساتھ کوئی چل ہی نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ ہی چل سکتا ہے جو میاں کہے: ’’بھئی یہ کونسی تاریخ کا چاند ہے‘‘۔ ’’جی چودہویں کا لگتا ہے‘‘۔ پاس سے کسی نے کہہ دیا کہ تُو تو بکواس کرتا ہے، یہ تو سورج ہے گا۔ میاں نے کہنا ہے، یہ بندہ غلط ہے گا۔
س: پھر اعجازالحق کیوں ان کے ساتھ ہیں؟
ج: ساتھ وہ اس لیے ہے کہ پیپلز پارٹی والے اس کے باپ کو گالیاں دیتے ہیں۔
س: ایک دفعہ میں نے سنا تھا کہ جنرل جیلانی بھی انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ بڑا محسن کش ہے۔
ج: ٹھیک ہے۔ بریگیڈیئر عبدالقیوم مرحوم اور جیلانی یک جان دو قالب تھے۔ بریگیڈیئر کا نواز شریف کے ساتھ بھی بہت تھا۔ بریگیڈیئر مرحوم سے میری بھی سلام دعا تھی۔ اسے میں نے کہا، یار یہ ہر بار مجھے ٹکٹ نہیں دیتا۔ محمد خاں اتنا کمزور ہے کہ وہ بات ہی نہیں کرتا۔ آپ کی نواز شریف کے ساتھ بڑی تعلق داری ہے۔ آپ اس کے سب کچھ ہیں۔ آپ انہیں سمجھا کے مجھے ٹکٹ لے دیں۔ بریگیڈیئر صاحب نے نواز شریف کو LITERALLY (سچ مچ) گالیاں دیں کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ہے، وہ ہے۔ کافی ناگواری کا اظہار کیا۔ کہنے لگے، اگر آپ کہتے ہیں تو اس کے پاس چلا جاتا ہوں۔ میں نے کہا، بریگیڈیئر صاحب، نہیں جانے دیں۔ کچھ عرصہ گزرا۔ بریگیڈیئر صاحب اور نواز شریف پھر بڑے دوست۔ میں نے انہیں کہا، بریگیڈیئر صاحب آج کل تو تیلا بھی نہیں گزرتا بیچ میں سے۔ انہوں نے مجھے کہانی سنائی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب 89ء میں پیپلز پارٹی پنجاب میں نواز شریف کے خلاف ووٹ آف نو کانفی ڈینس کرنا چاہتی تھی۔ بریگیڈیئر صاحب کہتے ہیں، میں بیمار آدمی ہوں۔ صبح اٹھتا ہوں تو کافی دیر تک چارپائی پر پڑا رہتا ہوں۔ ایک روز صبح سویرے مجھے اطلاع ملی کہ میاں نواز شریف، ان کے والد صاحب، ان کا بھائی، تینوں آئے ہیں۔ کافی عرصے بعد میرے گھر آئے تھے۔ میں نے کہا، انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھائو۔ کہتے ہیں، میں اوکھا سوکھا اٹھا۔ ڈرائنگ روم میں پہنچا تو وہ قالین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
س: تینوں ہی؟
ج: تینوں ہی۔ میں نے ان کی منت کی کہ اوپر صوفے پر بیٹھیں۔ انہوں نے کہا، نہیں، جتنی دیر معافی نہیں ملتی ہم صوفے پر نہیں بیٹھیں گے۔ کہنے لگے، آپ بتائیں کہ آپ کے گھر کوئی آدمی آیا ہو تو آپ کیا کریں گے۔ نہ چائے پینی ہے، نہ اوپر بیٹھنا ہے۔ خیر، میں نے انہیں اوپر بٹھایا۔ چاء شاء پیتی۔ مجھے کہتے ہیں کہ ہمیں اب جنرل جیلانی کے گھر لے چلیں۔ میں انہیں لے کر جنرل جیلانی کے گھر چلا گیا۔ میں ان کا سفارشی۔ جیلانی بات ہی نہ کریں۔ میں نے کہا، آپ کے گھر آئے ہیں۔ اب تو جانے دیں۔ کہتے ہیں، یہ کام تو ٹھیک ہو گیا۔ پھر کہا، اب اصغر خاں کو بلائیں۔ ہلاکو خاں جو ہیں۔ ان کے پاس چار پانچ ووٹ تھے۔ ان کا بھتیجا جو ہے۔ کیا نام ہے اس کا۔
س: نیوانی۔
ج: نیوانی۔
س: سعید اکبر نیوانی۔
ج: سعید اکبر نیوانی۔ اس کے چار پانچ ووٹ تھے۔ ان کی ضرورت تھی نواز شریف کو۔
س: وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف اپنے خلاف ووٹ آف نو کانفی ڈینس سے نپٹنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
ج: پیشگی تیاریاں کر رہے تھے۔ جنرل جیلانی نے پھر اصغر خان کو بلایا۔ اصغر خان بڑا دوست ہے جنرل جیلانی کا۔ اسے نواز شریف نے بہت تنگ کیا تھا۔ اس کے خلاف پرچے۔ یہ اور وہ۔ جیلانی نے کہا، خاں صاحب ساتھ دینا ہے۔ وہ کہتا ہے، جو حکم سرکار۔ بریگیڈیئر صاحب کہتے ہیں۔ بھائی اس طرح ہماری صلح ہوئی۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More