عظمت علی رحمانی
حکومت کی ایما پر بعض شخصیات کی جانب سے جیل میں پیر افضل قادری اور علامہ خادم حسین رضوی سے ملاقاتیں کی جارہی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کی اسیر قیادت اپنے بیانات واپس لینے اور آسیہ ملعونہ کے معاملہ پر کمپرومائز کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک علالت پر ٹی ایل پی کے کارکنان میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک کی مرکزی قیادت کو ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے، تاہم اس دوران بعض رہنمائوں اور کارکنان کو رہا بھی کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر بھی مضبوط ہو رہا ہے کہ مرکزی قیادت کو رہا نہیں کیا جائے گا اور ان کی نظر بندی میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن اس دوران سوشل میڈیا کے ذریعے ملک بھر کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی ٹی ایل پی کی قیادت کو رہا کرنے کے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں مقیم بعض پاکستانی افراد کی جانب سے یہ آفر بھی کی جا رہی ہے کہ اگر حکومت پاکستان خادم حسین رضوی کی رہائی کے بدلے کروڑوں روپے کا مطالبہ کرتی ہے، تو وہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت فی الوقت تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی اور سرپرست اعلی پیرمحمد افضل قادری کو رہا کرنے کیلئے غیر مشروط طور پر تیار نہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی جانب سے بھی سرکاری افسران و دیگر متعلقہ انتظامیہ سے مسلسل مشاورت کے بعد تحریک لبیک کے بعض رہنماؤں سے ملاقاتیں کی گئی ہیں، تاہم ابھی تک کوئی معاملات طے نہیں پائے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں تحریک لبیک کی اعلیٰ قیادت اپنے بیان واپس لے۔ اس کے علاوہ آسیہ ملعونہ کے معاملے پر عدلیہ کے ہر حکم کو تسلیم کرے، تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ تاہم تحریک لبیک کی قیادت کسی بھی صورت میں اپنے موقف میں لچک لانے کو تیار نہیں ہے۔
ادھر تحریک لبیک کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی کو گزشتہ روز دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی ای سی جی کی گئی۔ اس کے بعد کنڈیشن نارمل ہونے پر انہیں واپس کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں تحریک لبیک کے لاکھوں کارکنان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے قائم مقام امیر تحریک لبیک، علامہ ڈاکٹر شفیق امینی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمیں خدشات ہیں کہ مرکزی امیر پر جیل میں ذہنی دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں ڈرایا جارہا ہے۔ جیل ہی میں ہمارے ایک جید عالم دین علامہ محمد یوسف سلطانی کی شہادت کے بعد مرکزی امیر کے بارے میں انتہائی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں۔ تحریک کے لاکھوں کارکنان شدید غم میں مبتلا ہیں۔ بیماری کی خبر اس قدر تشویش ناک نہ ہوتی، اگر اس کے پیچھے دو اہم پہلو نہ ہوتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے ادویات کی عدم فراہمی کے سبب علامہ یوسف سلطانی کی شہادت اور پھر اس کے بعد علامہ خادم حسین رضوی کی بیماری سے قبل جیل میں ان سے سرکاری افسران کا ملنا۔ یہ دو ایسی باتیں ہیں جس کے بعد امیر صاحب کی بیماری کی خبر ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کو آسیہ ملعونہ کی بیرون ملک روانگی کی خبر سنائی گئی ہوگی، جس سے انہیں دل کا دورہ پڑا۔ اس سے قبل امیر تحریک علامہ خادم حسین رضوی سے بعض سرکاری افسران نے جیل میں ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات میں شاید ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ حکومت ہمارے پر امن ہونے کا غلط فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے قائدین کو فی الفور رہا کیا جائے۔ اب بہت ہوگیا۔ اگر اس صورت میں کارکنان باہر نکلے تو انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر خادم حسین رضوی کو ذرا سی بھی آنچ آئی، تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ ہم نے اب تک پرامن عوام کو بپھرنے نہیں دیا ہے۔ اگر حکومت نے ہمیں مجبور کیا تو میں احتجاج کی کال دینے پر مجبور ہوجاؤں گا‘‘۔
تحریک لبیک کراچی کے رہنما قاضی عباس کا کہنا تھا کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی صحت کے حوالے سے پورا پاکستان فکر مند ہے، انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔ یہ حکومت کی غلط فہمی ہے کہ دھونس اور دھمکی سے تحریک لبیک کو دبا لیں گے۔ حکومت، پاکستان کی نظریاتی اساس کی دشمن بنی ہوئی ہے‘‘۔