دوسری قسط
احمد خلیل جازم
دھمتھل دیہات کے لوگ نماز فجر کے بعد فوری طور پر دھمتھل ٹبہ پر واقع حضرت یوشع بن نون کے مزار پر حاضری دینے پہنچ جاتے ہیں۔ عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’’نماز فجر کے بعد کوئی شخص ہی ایسا ہوگا جو حاضری نہ دیتا ہو، ورنہ ہر شخص اس مزار پرآکر اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ یہاں جو جس نیت سے آتا ہے وہی حاصل کرتا ہے۔ اس ٹبے پر گھاس بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اگر کوئی شخص بغیر اجازت یہاں سے گھاس کاٹ کر لے جاتا تو جو جانور وہ گھاس کھا لیتا، مر جاتا تھا۔ چنانچہ لوگوں نے یہاں سے گھاس کاٹنا بند کر دیا۔ اب گھاس کو ختم کرنے کے لیے ہر برس دو بار اسپرے کرایا جاتا ہے‘‘۔ عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’’صاحب مزار کی کرامات کا شہرہ دور دور تک ہے۔ ایک مرتبہ گجرات سے ایک پڑھا لکھا شخص پریشانی کے عالم میں دھمتھل گائوں آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے کچھ دنوں سے خواب میں صاحبِ مزار مل رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس قبرستان میں مدفون ایک قبر، جو کہ اس شخص کی ساس کی تھی، کھلی پڑی ہے اور اس کے بے پردگی ہو رہی ہے۔ چنانچہ ہم لوگ اسے لے کر دھمتھل ٹبہ پر آئے تو واقعی اس شخص کی ساس کی قبر ایک جانب سے زمین میں بیٹھ رہی تھی اور قبر کی بے پردگی ہو رہی تھی۔ چنانچہ فوری طور پر اس قبر کی دوبارہ تعمیر کی گئی‘‘۔ عبدالعزیز نے اس خاتون کی قبر کی نشان دہی بھی کی۔ اب وہ قبر مضبوطی سے بنا دی گئی ہے۔
حضرت یوشع بن نو ن کے مزار کا اندرونی حصہ دیگر مزارات کی نسبت انتہائی سادہ ہے۔ آپ کی نو گز لمبی قبر پر سبز رنگ کی چادر چڑھائی گئی تھی۔ قبر کی اونچائی دیگر نو گزی قبروں سے زیادہ اونچی تھی۔ اگرچہ یہ لحد بھی چبوترے پر تھی، لیکن اس کی اونچائی اچھی خاصی تھی اور دیگر لمبی قبروں کی نسبت منفرد بھی تھی۔ اندر چار عدد پلرز چھت کو سہارا دیئے ہوئے تھے۔ سرہانے سنگ مرمر کی لوح تھی۔ جس پر آپ کا نام نامی تحریر تھا۔ لوح کے دونوں طرف تحریر لکھی ہوئی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے، صاحب مزار کا عرس اس وقت تک منایا جاتا تھا جب تک علم دین جو کہ مزار کے پہلے متولی تھے، زندہ رہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ موقوف کر دیا گیا۔ عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’’میری عمر 65 برس سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہاں اکثر لوگوں کو دیکھا ہے، جو منت مرادیں مانگنے آتے ہیں۔ منت پوری ہونے پر حسب توفیق جو کچھ یہاںلاکر بانٹ سکتے ہیں، بانٹتے ہیں۔ صاحب مزار کی کسی سے کچھ طلب نہیں ہوتی۔ البتہ ایک اہم روایت جو برسوں سے چلی آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ اس گائوں میں جتنے زمیندارہیں، ان کی چاہے جتنی بھی زمین ہے، وہ کم از کم ایک مرلہ زمین کی فصل صاحب مزار کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ گندم ہے، باجرہ ہے یا موٹھ ہے، جو کچھ بھی اس برس اگائے گا، اس کا ایک مرلہ مزار کے لیے وقف کردے گا۔ جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو متولی کو بتا دیا جاتا ہے۔ وہ ایک مرلہ کی فصل کاٹ کر لے جاتا ہے۔ اب وہ چاہے اس فصل کو بیچ دے یا یہاں مزار پرکچھ پکادے، اس سے زمیندار کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ فصل بیچ کر مزار کے مختلف کام کرائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ مزار پر ٹائلیں لگوائی گئی ہیں۔ یا بیرونی احاطے میں سنگ مرمر لگوایا گیا ہے۔ اس طرح مزار کے لیے کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ فصل کا یہ حصہ زمیندار اپنی خوشی سے دیتا ہے۔ اسے کوئی مجبور نہیں کرتا، بلکہ زمینداروں کا ماننا ہے کہ جس برس صاحب مزار کو حصہ نہ دیا جائے، اس بار فصل سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی خوشی سے یہ حصہ دیتا ہے‘‘۔
مزار پر خوبصورت سنگ مرمر کا کتبہ لگاہوا ہے۔ جس پر دونوں طرف تحریر موجود ہے۔ سامنے کی جانب سے جو کتبہ ہے، اس پر قبور کے حوالے سے دو احادیث تحریر ہیں اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کا نام نامی لکھا ہوا ہے۔ جب کہ اس کتبے کی پشت پر آپ کے نام نامی کے ساتھ ساتھ سائیں نصیب علی شاہ کے چلہ کشی اور علم دین متولی کی بابت تحریر ہے۔ چونکہ مزار ٹبے کی عین اونچائی پر واقع ہے، اس لیے اس کے دونوں اطراف دیواروں میں تین جالی دار کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ جن سے ہوا چھن چھن کر اندر داخل ہوتی ہے۔ پنجاب کا یہ علاقہ جو کہ بھارتی بارڈر سے متصل ہے۔ یہاں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ لیکن ان کھڑکیوں اور بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں ہوا کی آمدورفت جاری رہتی ہے، اور اب تو اس ٹبے پر بجلی تک پہنچادی گئی ہے۔ مزار پر سبز رنگ حاوی ہے۔ مزار کا بیرونی دروازہ اور دیوار گلابی رنگت کی ہے، جبکہ دیگر تین دیواریں سبزرنگ کی ہیں۔ اسی طرح اندرونی دیواروں کے نیچے سبز رنگ ہے، جبکہ اوپر تمام سفید رنگ کیا گیا ہے۔ مزار کے گنبد کے اندرونی حصے پر بھی سبز رنگ کیا گیا ہے۔ کسی قسم کی نقش نگاری پورے مزار پر دکھائی نہیں دیتی اور یہی چیز اس مزار کو دیگر سے منفرد کرتی ہے۔ مزار پر کوئی بھی چیز فضول دکھائی نہیں دیتی۔ یہاںسادگی ہے، لیکن وقار کے ساتھ۔ سکون ہے، لیکن خاموشی کے ہمراہ۔ اندر جانے والے کا باہر آنے کو جی نہیں کرتا اور باہر کھڑا شخص اندر جانے کو لپکتا رہتا ہے۔ ٹبے سے اردگرد کا منظر بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے صاحب مزار نے یہاں سے پورے علاقے پر نگاہ رکھی ہوئی ہے، اور یہی یہاں لوگوںکا بھی کہنا ہے کہ پہلے دور میں جب لوگ پیدل سفر کرتے یا پھر جانوروں پر سوار ہوتے تو یہاں آکر پڑائو کرتے۔ ان کا ایمان تھا کہ ان کا مال صاحب مزار کی وجہ سے محفوظ رہے گا۔ اسی لیے اکثر لوگ قافلوں کی شکل میں یا اکیلے یہاں پڑائو کرتے تھے۔ اب بھی یہی عالم ہے۔ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ صاحب مزار کی نگاہ تمام علاقے پر ہے۔ اہل علاقہ کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ ہم جتنی دیر مزار پرموجود رہے، لوگ آتے رہے۔ سلام کرتے، دعا کرتے اور چلے جاتے۔ خواتین بھی بڑی تعداد میں یہاں حاضری دیتی دکھائی دیں۔ لیکن یہ امر باعث حیرت تھا کہ علاقے بھر کے نوجوانوں کی آمد و رفت زیادہ تھی۔ اکثر نوجوان مزار کے سرہانے بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہے۔ بعض نوجوان صرف دعا پر اکتفا کرتے دکھائی دئیے۔ دیگر مزارات پر بھی نوجوانوں کو آتے دیکھا۔ لیکن وہاں اکثر دعا کے ساتھ ساتھ سیلفیاں بناتے بھی نظر آتے تھے۔ لیکن یہاں ایک شخص کو بھی سیلفی بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ احترام، عقیدت اور محبت کا جذبہ دکھائی دیتا رہا۔
حضرت یوشع بن نون کی دنیا بھر میں چار جگہوں پر قبور بتائی جاتی ہیں۔ ایک قبر تو استنبول میں ہے۔ دوسری اردن۔ تیسری اسرائیل کے مقبوضہ علاقے میں اور چوتھی پاکستان میں دھمتھل ٹبہ پر واقع ہے۔ اس حوالے سے بعض محققین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بہت حیران کن باتیں بتائیں۔ دھمتھل میں حضرت یوشع بن نون کی قبر کیسے بنی۔ اس پر نو گزوں پر تحقیق کرنے والے محقق شاہ زین کا کہنا تھا کہ آپ حضرت یوشع بن نون کی ہی لحد مبارکہ صرف کیوں پوچھ رہے ہیں۔ اس علاقے میں کم و بیش ڈیڑھ سو انبیا کی قبور ہیں۔ وہ کیسے یہاں آگئیں۔ میرے پاس اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ دھمتھل میں واقع قبر مبارکہ حضرت یوشع بن نون کی ہی ہے۔ جبکہ دیگر جہاں جہاں قبور ہیں، ان میں آپ کا جسم اطہر موجود نہیں۔ یہ بڑی دلچسپ بات تھی، جو شاہ زین نے بتائی۔ اس سے قبل ایک انٹرنیشنل اردو سائٹ نے حضرت یوشع بن نون کی قبر ترکی کے شہر استنبول میں بیان کی ہے۔ اوراس کی لمبائی تیس میٹر طویل بتائی جاتی ہے۔ یہ اردو سائٹ لکھتی ہے کہ ’’یہ یوشا پہاڑی جو کہ پہلے جن پہاڑی کہلاتی تھی، اس پر واقع ہے اور اس کے سرہانے ایک لوہے کی سلاخ نصب کی گئی ہے، تاکہ سرہانے کا اندازہ لگایا جاسکے۔ قبر کی لمبائی پر تین روایات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ پیغمبر ہونے کے ناطے احتراماً اسے طویل بنایا گیا۔ دوسری یہ ہے کہ اس قبرکو بنانے کے وقت اس بات کو مد نظر رکھا گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبر کا اصل مقام ضائع نہ ہو جائے۔ جبکہ تیسری روایت یہ ہے کہ اس پہاڑی پر جن رہا کرتے تھے اور انہوں نے اس قبر کی تعمیر میں حصہ لیا، اسی لیے اس کو اتنا طویل بنایا گیا‘‘۔ دوسری قبر اردن میں بیان کی جاتی ہے۔
سرگودھا کوٹ مومن کے رہائشی عارف نجمی کا کہنا ہے کہ وہ اردن میں حضرت یوشع بن نون کی قبر کی زیارت کرکے آئے ہیں۔ وہاں دیگر انبیا کی قبور بھی موجود ہیں۔ حضرت یوشع بن نون کی قبر بھی وہیں ہے۔ لیکن اس قبر کی لمبائی عام قبور جتنی ہے۔ جبکہ دیگر کچھ انبیا کی قبور کی لمبائی زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک قبر اسرائیل میں بھی ہے۔ جبکہ جو قبر دھمتھل میں ہے، وہ نوگز کی ہے۔ اس پر شاہ زین کا کہنا ہے کہ ’’مجھے تمام قبور کے بارے میں علم ہے۔ چونکہ آپ حضرت یوسف صادقؑ جنہیں پاکستان میں صرف حضرت یوسفؑ کہا جاتا ہے، کی نسل سے ہیں اور ان کے بیٹے افرائیم جسے ہم لوگ افراہیم کہتے ہیں، وہ آپ کے آباء ہیں، اس لیے میری دلچسپی ان سے اس لیے زیادہ ہے کہ ہم بھی یوسفی نسل سے ہیں۔ چنانچہ میں نے تحقیق کا آغاز کیا تو میری تحقیق نے مجھے مجبور کیا، میں یہ بات کہوں کہ دھمتھل میں جو قبر ہے وہ حضرت یوشع بن نون کی ہے۔ وہی حضرت یوشع بن نون، جو حضرت موسیٰ کے صحابی، خادم اور بھانجے تھے۔ بعد ازاں انہیں نبوت ملی‘‘۔ (جاری ہے)