نجم الحسن عارف
نیب میں ایل این جی سے متعلق اسکینڈل کے بارے میں حتمی فیصلہ ہونے تک پاکستان میں قدرتی گیس کی قیمت بھی بار بار بڑھتی رہے گی اور قلت کا ماحول بھی سامنے آتا رہے گا۔ ذرائع کے مطابق نیب میں اس سلسلے میں 80 فیصد انکوائری مکمل ہو چکی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کے حکم پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی یہ رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ ہر قسم کے لازمی این او سی کے بغیر اینگرو کے ساتھ معاہدہ کرانے والے موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر کی وجہ سے حکومت بھی اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی ظاہر نہیں کر رہی ہے۔ ذرائع کے بقول اوگرا کی موجودہ سربراہ عظمیٰ عادل کو پاکستان میں قدرتی گیس کی قیمت میں بتدریج اضافے کے ’’ایجنڈے‘‘ کے ساتھ لایا گیا تھا، جس میں وہ منصوبے کے مطابق کامیاب رہیں اور ستمبر 2017ء میں انہوں نے وفاقی کابینہ کو ایک غیر قانونی سمری بھیج کر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے منظوری لے لی۔ سابق کابینہ کی منظوری کے باعث اور سالانہ دس ارب 60 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ بڑی ہوشیاری سے عام گیس صارفین پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سارے عمل کا اصل فائدہ براہ راست ان کمپنیوں کو ہو رہا ہے، جو بظاہر حکومتی 52 فیصد کے حصص کے مقابلے میں 48 فیصد کی مالک ہیں۔ لیکن بالواسطہ اس کا فائدہ وہ لوگ بھی اٹھا رہے ہیں، جنہوں نے حکومت یا سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہوئے ایسے فیصلے کئے یا ایسے فیصلوں کیلئے راہ ہموار کی۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی اہم بات ہے کہ ایل این جی کا معاہدہ پاکستان اور قطر کی حکومتوں کے درمیان نہیں ہوا تھا۔ بلکہ پاکستان کی طرف سے پی ایس او اور قطر کی نجی کاروباری کمپنی قطر گیس کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے میں ایل این جی کی ’’اسپیسیفکیشنز‘‘ کے تعین کے حوالے سے قطر گیس نامی نجی کمپنی کو بالادستی دی گئی۔ گویا کم معیار کی ایل این جی پاکستان نے بالواسطہ طور پر قبول کرنے پر شروع میں ہی اتفاق کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ قطر گیس نامی کمپنی قطر کے شاہی خاندان کے ایک اہم رکن کی ذاتی ملکیت ہے۔ یہ قطر کی سرکاری کمپنی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ نجی کمپنی ایل این جی دنیا میں جہاں سے اسے زیادہ سستی دستیاب ہوتی ہے، وہاں سے خرید کر پاکستان کو مہنگی فروخت کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ گیس قطر سے آ رہی ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداوار میں کبھی ترسیل میں کمی کر کے اور کبھی موسمی اثرات کے نام پر کمی کر کے ایل این جی کی درآمد بدستور بڑھانے کی حکمت عملی ہے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ اینگرو اور اقبال زیڈ احمد کے دو ٹرمینلز سے آنے والی یہ ایل این جی فوری طور پر ’’ری گیسی فائی‘‘ ہونے کیلئے سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے کنٹرول میں چلی جاتی ہے، جہاں سے اسے قدرتی گیس کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور تھوڑی ایل این جی ملا کر مقامی گیس کو ایل این جی کے نام پر بڑی مقدار مہنگی فروخت کر دی جاتی ہے۔ اس حربے کا فائدہ بھی ان نجی کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے، جو ایل این جی پی ایل کے 48 فیصد شیئرز کی مالک ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں مرزا محمود اور منشا گروپ نمایاں ہیں، جو خوب روپیہ کما رہے ہیں۔ مرزا محمود اتفاق سے سوئی نادرن اور سوئی سدرن دونوں کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں۔ اس لئے ان کی دسوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ گھاگ کاروباری کمپنیاں زیادہ منافع کمانے کیلئے ایل این جی کو ایک آڑ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ جبکہ اس بہتی گنگا میں وہ اعلیٰ حکام اور سابق اعلیٰ عہدیدار بھی ہاتھ دھو رہے ہیں، جن کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی سے ان نجی کمپنیوں کو اندھا منافع حاصل ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف احتسابی کارروائیوں کی حمایت کیلئے سرگرم موجودہ حکومت کی جانب سے ایل این جی کی آڑ میں قدرتی گیس کی مہنگے داموں فروخت کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ نہ ہی ایل این جی کیس آگے بڑھانے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ اس کے بنیادی معاہدے میں سابق حکمرانوں اور اوگرا کی موجودہ سربراہ، ایل این جی بی ایل کے اعلیٰ حکام اور وزارت پیٹرولیم میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز کئی بڑے ناموں کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیر خزانہ اسد کو بھی انکوائری کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اینگرو کو فائدہ پہنچانے کیلئے مختلف اداروں کے این او سی کے بغیر ہی ٹرمینل فراہمی کا معاہدہ ممکن بنا دیا تھا۔ خیال رہے کہ نیب نے جن افراد کے خلاف انکوائری کر رکھی ہے، ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، عظمیٰ عادل، عمران الحق، شاہدالسلام، شاہد یوسف، اسد عمر، سعید احمد خان، صابر حسین، عامر نسیم چیمہ اور دیگر شامل ہیں۔ اس انکوائری میں ممکنہ طور پر اہم کردار ایک سابق سرکاری افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نیب کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کی سربمہر رپورٹ پیش کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔ لیکن اب ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود یہ رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں کی گئی ہے۔ اس سابق سرکاری عہدیدار نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی معاہدے میں ایل این جی کی Spot Buying کی سہولت کو بھی نظر انداز کیا گیا، حالانکہ یہ پاکستان کے فائدے میں ہو سکتی تھی کہ ایل این جی کی عالمی منڈی میں قیمت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ لیکن معاہدے میں اس پہلو کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ نے وزیراعظم عمران خان کے حکم پر تین دنوں میں گیس بحران پر رپورٹ مرتب کرنے والی کمیٹی کی سربراہ عظمیٰ عادل سے رابطہ کیا کہ رپورٹ میں بحران کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا گیا ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خفیہ رپورٹ ہے۔ اس لئے اس بارے میں بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس سوال پر کہ آیا یہ رپورٹ قومی دفاع کے کسی منصوبے یا مفاد عامہ کے پس منظر کی ایک رپورٹ ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ خفیہ رپورٹ ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس رپورٹ میں نیب میں زیر انکوائری اسکینڈل کے بارے میں بھی کوئی باب ہے۔ تو ان کا کہنا تھا نیب میں زیر انکوائری سے اس رپورٹ کا تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’نیب انکوائری میں ویسے تو آدھا پاکستان شامل ہے۔ لیکن انہیں ابھی تک نیب نے انکوائری کیلئے بلایا ہے نہ نوٹس بھجوایا ہے‘‘۔