وزیراعلیٰ نواز شریف نے اصغر خان کو تنگ کر رکھا تھا

0

س: اصغر خاں کو وزیراعلیٰ نواز شریف نے تنگ کیا تھا؟
ج: ہاں۔
س: اصغر خاں، اس وقت ریٹائر ہو چکے تھے۔
ج: ہاں۔
س: اصغر خان کے بھتیجے بھی نواز شریف کے خلاف تھے۔
ج: بہت اس کے خلاف تھے۔ ان لڑکوں کو 88ء میں ٹکٹ نہیں ملا تھا۔
س: وہ پھر انڈی پینڈنٹ ہوئے تھے۔
ج: انڈی پینڈنٹ ہوئے تھے۔ وہ (رشید اکبر نیوانی) ڈسٹرکٹ کونسل (بھکر) کے چیئرمین تھے۔
س: پھر انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
ج: پرچے کرا، یہ کرا وہ کرا۔
س: ڈسٹرکٹ کونسل کے اکائونٹس چیک کرنے کے لئے ان پر کمیٹی بٹھا دی گئی۔
ج: ہاں۔
س: یہ پس منظر تھا تینوں باپ بیٹوں کے قالین پر بیٹھنے کا۔ اس طرح پھر صلح ہو گئی۔
ج: اس طرح صلح ہو گئی۔ اصغر خان کو پھر تنگ کیا۔
س: وہ معاملہ جو ٹل گیا۔ ووٹ آف نو کانفی ڈینس پھر ہوا ہی نہیں۔
ج: انہوں نے پیشگی ووٹ آف کانفی ڈینس (اعتماد کا ووٹ) لے لیا تھا۔
س: پھر بھی وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش تو کر سکتے تھے۔
ج: بندے ہی نہیں تھے ان کے پاس۔ پیش کیا کرتے۔
س: سنا یہ گیا تھا کہ جنرل اسلم بیگ کی مداخلت پر تحریک پیش نہیں ہوئی، ورنہ تیاری مکمل تھی۔
ج: نواز شریف نے ووٹ آف کانفی ڈینس لے لیا تھا، کیونکہ انہوں نے ٹیسٹ کیس کے طور پر ووٹ آف نو کانفی ڈینس کیا تھا وٹو کے خلاف۔
س: اسپیکر کے خلاف۔
ج: اسپیکر کے خلاف AS A TEST CASE، انہیں ڈیفیٹ ہو گئی۔ دوسرے نواز شریف نے خود ہی ووٹ آف کانفی ڈینس لے لیا۔
س: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ والی افواہ ہی تھی۔
ج: دیکھو جی، ووٹیں دونوں پارٹیوں کے برابر تھے۔ تقریباً۔ ایک ووٹ کا فرق تھا۔ 35 ووٹ تھے۔ انڈی پینڈنٹ، جنہیں وہ چھانگے مانگے لے گئے۔
س: نواز شریف؟
ج: ہاں۔ اگر وہ پیپلز پارٹی کے ہتھے چڑھ جاتے تو وہ لے جاتے۔ پھر ان کے پاس بندہ کوئی نہیں تھا۔ سردار فاروق لغاری تھے۔ لیکن وہ پنجاب پالیٹکس میں ایکٹو نہیں تھے۔ وہ بندے ہی نہ ڈھونڈ سکے کہ کہاں گئے ہیں۔
س: سنا تھا کہ وہ وہاں چھانگا مانگا میں بڑی عیاشی کرتے رہے؟
ج: عیاشی تو خیر کیا، نواز شریف لے گیا تھا ممبرز کو میریٹ ہوٹل (اسلام آباد) میں، وہاں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔
س: میرٹ ہوٹل میں تب جب…
ج: اب، 93ء میں اسمبلیاں RESTORE (بحال) ہونے کے بعد۔
س: اخباروں میں آیا تھا کہ وہاں بڑے بل وغیرہ آئے۔
ج: وہ دو مہینے وہاں رہے۔
س: کیا ہوتا رہا؟
ج: جب کیس نہیں چلا تھا۔ پنجاب گورنمنٹ کے متعلق۔ نواز شریف بن گیا تھا وزیر اعظم دوبارہ۔ ممبرز سارے گھیر کے وہاں لے گئے تھے، میریٹ ہوٹل میں۔ پنجاب اسمبلی کا مقدمہ چل رہا تھا ہائی کورٹ میں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے۔ دو مہینے وہاں رہے۔
س: خبریں بھی چھپتی رہیں کہ اتنا بل آ گیا۔ فلاں نے اتنا کھایا پیا۔ یہ ہوتا رہا، وہ ہوتا رہا۔
س: اس وقت ایک وزیر کی تنخواہ کتنی تھی؟
ج: رشوت ہوتی تھی۔ تنخواہ تو اتنی نہیں ہوتی تھی۔
س: پھر وزیر بھی کرپشن سے پیدا کرتے ہوں گے۔
ج: یقیناً۔
س: یہ سنٹر کی بات ہے کہ صوبے کی؟
س: سنٹر کی۔ صوبے کا مجھے نہیں پتہ۔
مولوی فضل الرحمن فارن افیئرز اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ہر روز وہ بے نظیر کو ٹیلی فون کرتے ہیں کہ ہیلی ’’کوپٹر‘‘ چاہئے۔ وہ ہیلی ’’کاپٹر‘‘ بھیج دیتی ہیں۔ مولوی صاحب سیریں کرتے پھرتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی ڈویلپمنٹ ان کے علاقے میں ہو رہی ہے۔ جس قدر فائدہ مولوی فضل الرحمن اٹھا رہے ہیں، کوئی اٹھا ہی نہیں رہا۔ وہ چھوڑ کر کیوں جائیں جی۔ یہ سارے وہی لوگ ہیں جو نواز شریف کے زخم خوردہ ہیں۔ کون ان کے ساتھ شامل ہوگا اور جاکے لوگوں کو قائل کرے گا۔
س: ووٹوں کا فرق بھی تو بہت ہے؟
ج: فرق کیا ہے۔ نواز شریف کے پاس ٹوٹل ووٹ ہیں 72۔ چاہئیں 109۔ 37 ووٹ اکٹھا کریں تو پھر ووٹ آف نو کانفی ڈینس کریں نا۔ 37 ووٹ کون سے ہو سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے ہو سکتے ہیں، ہندوئوں کے ہو سکتے ہیں، یا فاٹا کے ہو سکتے ہیں۔
س: یہ تو روایتی طور پر گورنمنٹ کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ج: اگر یہ سارے بھی مل جائیں۔ دس اقلیتوں کے، آٹھ فاٹا کے اٹھارہ ہو گئے۔ باقی انیس ووٹ کون سے ہیں جو یہ لائیں گے۔ نصراللہ خاں دیں گے؟ جتوئی صاحب دیں گے؟ فضل الرحمن دیں گے؟ یا اکا دکا ووٹ جو ہیں وہی ہیں۔
س: مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف بیان بازی بھی کرتے ہیں۔ بے نظیر کے ساتھ ملاقات کے بعد پھر رویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
ج: بھائی صاحب (مولانا) فضل الرحمن صاحب کوئی بات کریں میں نہیں مانوں گا اور دنیا بے شک اس کی پوجا کرے۔
مجھے یاد ہے، ایک دفعہ ایئرمارشل نور خاں کونسل مسلم لیگ میں آئے۔ دو تین مہینوں کے بعد مجھے پوچھنے لگے، آپ ان کو تنخواہ کیا دیتے ہیں۔
س: عہدیداروں کو؟
ج: نہیں نہیں، ورکروں کو۔ میں نے کہا، تنخواہ تو کوئی نہیں دیتے۔ کہتے ہیں، یہ مفت کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا، جی۔ کہنے لگے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا، آپ کو اس کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ یہ ان کی ٹریننگ ہے۔ فوجی تنخواہ لیتے ہیں، تنقید بھی کرتے ہیں، بات بھی سنتے ہیں۔ اسی واسطے ان فوجیوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی اور کوئی فوجی، ریٹائرڈ آدمی، جس کی کوئی وقعت ہو، وہ سیاست میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ پھر ان کے جو جرنیل ہیں، ان کا انداز ہوتا ہے حکمرانی۔ وہ جب آتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم آگئے، یہ سارے ہالٹ ہو جائیں گے۔ وہ ہالٹ نہیں ہوتے تو یہ کہتے ہیں، یہ کیا تماشا ہے۔ بھائی ان کی ٹریننگ ہی نہیں ہوتی سیاسی۔ وہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ بس مارش لا کے ذریعے آجائیں تو آجائیں۔ وہ کسی سیاسی عمل میں سے گزر کر نہیں آتے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More