سدھارتھ شری واستو
نت نئی ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز سمیت فوری کمیونی کیشن والی اس دنیا میں جہاں باہمی رابطے بڑھ رہے ہیں اور دنیا ’’عالمی گائوں‘‘ کہلانے لگی ہے، وہیں انسانوں کے باہمی رشتے پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کا اندازہ عالمی میڈیا کی ان رپورٹوں سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ بھر میں مرد حضرات اپنی بیویوں اور گرل فرینڈز کی جاسوسی میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے پہلا نمبر برطانیہ کا ہے، جہاں کے باشندوں میں بیویوں، گرل فرینڈز، بچوں اور گھریلو ملازمین سمیت صفائی کرنے والوں کی جاسوسی کا رجحان انتہائی تیزی سے بڑھا ہے۔ لیکن دوسروں کی جاسوسی کرنے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کی کمپنی بھی ان کی جاسوسی کر رہی ہے اور ان کی ’’پرمیشن‘‘سے ان کی لوکیشن اور کال ریکارڈ اور دیگر اقسام کی مانیٹرنگ کی اجازت لے لیتی ہے۔ کیونکہ اس پرمیشن کے بغیر سافٹ ویئر کما حقہ کام نہیں کرتا اور فعال نہیں ہوسکتا۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ ایپل اور گوگل پلے اسٹور پر ایسی متعدد ایپلی کیشنز صارفین کو فروخت کی جارہی ہیں یا کرائے پر سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں جن کی مدد سے لوگ اپنے ہی خاندان والوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں برطانوی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایسی جاسوس ایپلی کیشنز کی فروخت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ یورپی ممالک، بالخصوص برطانوی معاشرے میں ایسی جاسوس ایپلی کیشنز خاندانی رشتوں میں دراڑیں ڈال رہی ہیں اورمتعدد گھرانوں میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ڈیلی میل آن لائن نے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور گھریلو تشدد کی روک تھام کیلئے کارگزار تنظیمیں ایسی ایپلی کیشنز کیخلاف ہیں، جو نہ صرف انٹرنیٹ کی برائوزنگ ہسٹری کا ریکارڈ نکال سکتی ہیں اور مطلوبہ ای میل اکائونٹس پر بھیج سکتی ہیں، بلکہ بعض ایپلی کیشنز مطلوبہ فون کی سرگرمی اور کال ریکارڈ سمیت ٹیکسٹ پیغامات کی ایک کاپی کو جاسوسی کرنے والوں کی ڈیوائس یا ای میل یا موبائل فونز پر بھیج سکتی ہیں اور فون کی لوکیشن اور کال ریکارڈ کو مسلسل نوٹ کر رہی ہوتی ہیں۔ برطانوی ماہر ایلکس برائون کا کہنا ہے کہ google آئی فون یا پلے اسٹور پر ایسی اہم ایپلی کیشنز موجود ہیں، جو جاسوسی کا نشانہ بننے والوں کی سماجی رابطوں کی سائٹس پر کی جانے والی تمام سرگرمیوں کا ڈیٹا مرتب کرسکتی ہیں اور اپنے استعمال کنندگان کو مطمئن کرسکتی ہیں۔ ایسی ہی ایک paid ایپلی کیشن کا نام ایم اسپائی ہے، جس کی استعمال کی سالانہ قیمت/ کرایہ پچیس ہزار پاکستانی روپے تک ہے۔ اس ایپلی کیشن کے تیار کنندگان کا کہنا ہے کہ اس ایپلی کیشن کو
ابتدائی طور پر بچوں کو مخرب الاخلاق ویب سائٹس تک جانے اور ایس ایم ایس پیغامات کی رسائی و وصولی سمیت لوکیشن، کال سیٹ اپ اور واٹس اپ پیغامات کی چھان بین کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں والدین نے کافی دلچسپی لی تھی۔ لیکن بعد ازاں اس ایپلی کیشن کے ڈویلپرز نے اس کے سافٹ ویئر میں متعدد تبدیلیاں کردیں اور ایسے مرد و خواتین حضرات کیلئے قابل قبول بنا دیا جو اپنے ہی گھر والی یا گھر والے کی جاسوسی کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ ان مرد و خواتین کو شک ہے کہ ان کے زوجین ان کے ساتھ بے وفائی اور دوسروں کے ساتھ ربط و ضبط رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایسی ایپلی کیشنز کے حوالے سے آئی ٹی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ بہت اہم ہے اور اسکرین پر دکھائی نہیں دیتی۔ اس کو خاموشی کے ساتھ کوئی بھی مرد یا خاتون اپنے شوہر یا بیوی یا دوست کے موبائل فون میں انسٹال کر دیتی ہیں اور اس کے بعد یہ سافٹ ویئر خموشی کے ساتھ اندر گھس بیٹھ کر تمام قسم کی سرگرمیوں مثلا لوکیشن، نقل و حرکت، انٹرنیٹ برائوزنگ، ٹیکسٹ پیغامات اور دیگر تفصیلات سمیت سماجی رابطو ں کی سائیٹس پر سرگرمیوں اور بھیجے جانے والے پیغامات اپنے ’’ہینڈلر ‘‘کو بھیجتا ہے اور یوں ایک ایک لمحہ کی تفصیلات جاننا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ اس کی مدد سے یورپی ممالک میں لاکھوں مرد و خواتین ایسی ایپلی کیشنز کا مسلسل استعمال کر رہے ہیں اور اپنے ہی گھر والوں (بشمول میاں، بیوی، بچوں) اور ملازمین اور مرد و خواتین دوستوں کی نگرانی کررہے ہیں کہ وہ کہاں اور کس سے کب ملاقاتیں کرتے ہیں یا کیا کھا پی رہے ہیں یا مستقبل میں کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں۔ عالمی جریدے فوربس نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کمیونی کیشن کے دور میں باہمی اعتماد کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے اور والدین سمیت زوجین چاہتے ہیں کہ وہ اس بات کو جان پائیں کہ ان کی اولادیں ان کی غیر موجودگی میں انٹرنیٹ پر کیا تلاش کررہی ہیں ،جب کہ آجر حضرات جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ملازمین ان کی غیر موجودگی میں یا کسی کام کو تفویض کرنے کی صورت میں دلجمعی اور اخلاص کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ جبکہ لاکھوں مرد و خواتین نئے سافٹ ویئر کی مدد سے جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے جیون ساتھی ان کی غیر موجودگی میں ان سے دھوکا یا بے وفائی تو نہیں کر رہے۔ اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی نے یورپی ممالک میں جاسوسی کے خواہشمندوں کی کافی مدد کی ہے اور انفراریڈ آلات سے جسمانی سرگرمیوں کا پتا چلایا جاسکتا ہے تو سی سی ٹی وی اسمارٹ کیمروں سے گھر میں داخل ہونیوالے افراد کی ویڈیوز بھی کہیں بھی بیٹھ کر دیکھی جاسکتی ہیں اور معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان کے گھر میں کون کیا کررہا ہے۔ میڈیا جائزوں اور سروے نتائج سے یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ یورپی باشندے اور بالخصوص برطانوی شہری اس سے بڑھ کر بھی کچھ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کی رسائی ایسے جدید سافٹ ویئر تک ہوجائے جو ان کو ان کے جیون ساتھیوں (مرد و خواتین) سمیت ان کے بچوں کی انٹرنیٹ اور موبائل فونز پر سرگرمیوں ان کی آمد و رفت سمیت ان کے ملازمین کی نقل و حرکت اور ٹیلی فونک کالز، ایس ایم ایس اور ڈیٹا تک رسائی ممکن بنا سکے۔ فوربس جریدے نے بتایا ہے کہ ایسی ایپلی کیشنز اطفال کی نگرانی اور ان کو غلط ہاتھوں یا افراد کے استحصال سے بچانے میں مدد دیتی ہیں۔ لیکن بات جہاں تک زوجین یا مرد و خواتین دوستوں کی آتی ہے، یہ صریح قسم کی بد اخلاقی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ بیشتر یورپی ممالک میں کسی دوسرے کا کمپیوٹر یا موبائل فون ڈیوائس اس فرد کی بلا اجازت استعمال کرنے کی پاداش میں مقدمہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ملزم کو مجرم قرار دیئے جانے کی صورت میں اسے دو سال تک قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یورپی باشندوں میں ایک دوسرے اور گھر والوں کی جاسوسی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭