مڈٹرم الیکشن ہوئے تو صدارتی نظام لایا جائے گا

0

امت رپورٹ
اقتدار کے ایوانوں میں یہ باتیں چل رہی ہیں کہ اگر مڈ ٹرم الیکشن ہوئے تو پھر ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاست کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ موجودہ پارلیمانی سسٹم کے مقابلے میں صدارتی نظام زیادہ بہتر ہے کہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے جھنجھٹ میں الجھنے کے بجائے فرد واحد اہم ترین فیصلے کر سکتا ہے۔ جبکہ اس وقت ملک جس بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں صدارتی نظام کی اہمیت مزید شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی ہے کہ اہم ترین فیصلے تاخیر کے بغیر کئے جا سکیں۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت اگرچہ ملک مختلف ایشوز میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن سب سے اولین ترجیح گرتی اور بدحال معیشت کو سنبھالنا ہے۔ جس کے لئے موجودہ حکومت کی کوششیں تاحال ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ جوں کا توں اپنی جگہ برقرار ہے۔ کرنٹ اکائونٹ بیلنس بھی ٹھیک کرنا ہے۔ گروتھ ریٹ گر رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں 35 سے 40 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ سعودی عرب سے دو ارب ڈالر کی امداد آ جانے کے بعد بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ امپورٹ میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ لیکن ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہو سکا۔ ایکسپورٹ بڑھانے میں بھی ابھی تک کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع کے بقول ایک طرف جہاں ملک کو اس بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے تو دوسری جانب پارلیمانی نظام مفلوج پڑا ہے۔ حکومت نے اگرچہ شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا کر اپوزیشن کا مطالبہ پورا کر دیا، جس سے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ تاہم اپوزیشن نے نئے مطالبات سامنے رکھ دیئے ہیں کہ انہیں پسند کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی دی جائے۔ اس معاملے پر ڈیڈ لاک ہونے کا امکان ہے۔ جس سے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس طرح حکومت کی جانب سے اقتدار سنبھالے تین ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی قومی اسمبلی میں کوئی بل پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ دوسری جانب اٹھارہویں ترمیم کی اہم شقوں میں تبدیلی کا امکان بھی معدوم ہے۔ کیونکہ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں۔ اس پر مزید ’’ستم‘‘ یہ ہے کہ اتحادی پارٹیوں نے بھی آنکھیں دکھانی شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مشکلات کے پیش نظر ہی وزیر اعظم عمران خان نے وسط مدتی انتخابات کا عندیہ دیا اور عملاً ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے بقول وزیر اعظم کی طرف سے پس پردہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مطلوبہ اکثریت دلائی جائے یا پھر نئے الیکشن کرا دیئے جائیں۔
ذرائع کے مطابق نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پی ٹی آئی کو اس بار اکثریت مل جائے گی۔ بلکہ یہ امکان بھی ہے کہ وہ موجودہ سیٹوں میں سے بھی بیشتر کو کھو دے۔ حکومت کی سو روزہ کارکردگی نے ہی عوام کو اذانیں دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور پھر یہ کہ 25 جولائی کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے لئے جو دستر خوان بچھایا گیا تھا۔ ہر بار اس نوعیت کا دستر خوان بچھانا ممکن نہیں۔ ذرائع کے مطابق اس سیناریو کو مدنظر رکھ کر قومی حکومت کے آپشن پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے تاکہ ملک کو موجودہ سنگین بحرانوں سے نکالنے کے لئے قابل اور اہل لوگوں کی ٹیم تشکیل دی جا سکے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب اسمبلیاں تحلیل ہوں اور پھر نئے الیکشن کے انعقاد کے بجائے اچانک ایسی قومی حکومت کی بات شروع کر دی جائے جسے صدارتی نظام کے تحت چلایا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر مملکت کے پاس اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات نہیں رہے۔ اب یہ صوبائی معاملہ ہے۔ جب تک کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، وفاق کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق مستقبل میں اگر اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کا آپشن اختیار کیاجاتا ہے تو اس کے لئے وفاق، پنجاب اور خیبر پختون میں حکومت کو اسمبلیاں توڑنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ وہاں پی ٹی آئی برسراقتدارہے۔ بلوچستان میں بھی اس سلسلے میں زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔ تاہم سندھ میں یہ کام پیپلز پارٹی کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب احتساب کا ڈنڈا گھمانے میں جو تیزی آئی ہے۔ اس کے پیچھے یہی بات کارفرما ہے کہ مستقبل قریب میں جو ملکی سیٹ اپ لانے پر غور کیا جا رہا ہے سندھ کی حکمران جماعت بھی اس میں ساتھ دے۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری میں تاخیر کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چونکہ گرفتاری عمل میں آنے کی صورت میں گیم ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا فی الحال گرفتاریوں سے ڈرا کر کام نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بات نہیں بنی تو دھمکیوں کو عملی شکل دے دی جائے گی۔ ذرائع کے بقول فی الحال آصف زرداری اپنے پتے کھیلنے میں مصروف ہیں، اور ہتھیار پھینکنے پر تیار نہیں، لہٰذا ان کی گرفتاری قریب دکھائی دے رہی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ انور مجید تو نہیں لیکن ان کے بیٹے عبدالغنی مجید سابق صدر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ چنانچہ آصف زرداری کی گرفتاری کا جب بھی فیصلہ کیا جاتا ہے اس پر فوری عمل کر دیا جائے گا کہ تیاری مکمل ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ انور مجید نے آصف زرداری تک بڑے گلے شکوے پہنچائے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ سابق صدر کے کہنے پر واپس پاکستان آئے تھے۔ کیونکہ آصف زرداری نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔ تاہم اس کے برعکس ہوا اور اب انور مجید کو شکوہ ہے کہ دیرینہ دوست ان کی مدد کے بجائے اپنی جان چھڑانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے گھیرا مزید تنگ ہو جانے پر ہی جارحانہ موڈ اختیار کیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب سابق صدر کے دل میں مسلم لیگ (ن) کے لئے بھی گوشہ نرم ہو رہا ہے۔ انہوں نے خواجہ برادران کی گرفتاری کی سخت مذمت اسی پیرائے میں کی۔ کیونکہ سابق صدر چاہتے ہیں کہ کل کو ان کی گرفتاری ہوتی ہے تو مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے بھی اسی طرح آواز اٹھائی جائے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ایک جیسے حالات کا شکار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ محاذ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ سے باہر مشترکہ احتجاج کے حوالے سے پس پردہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے بقول شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کا مطالبہ تسلیم کئے جانے کے بعد اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اور اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دیگر مطالبات کی منظوری کے لئے بھی مل کر چلا جائے گا۔ اس سلسلے میں پسندیدہ قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے حصول اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر ایوان کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر اپوزیشن ایک ہو گئی ہے۔ اپوزیشن نے داخلہ، خارجہ، خزانہ، اقتصادی امور اور دیگر اہم قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی مانگی ہے۔ جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ اپوزیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انسانی حقوق اور موسمی تغیرات جیسی معمولی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی پر اکتفا کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ جلد ہی پی ٹی آئی حکومت اس معاملے پر بھی گھٹنے ٹیک دے گی۔ کیونکہ اپوزیشن پارٹیوں نے یہ حتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پسند کی قائمہ کمیٹیوںکی سربراہی کے علاوہ کسی کمیٹی کی چیئرمین شپ قبول نہیں کرے گی۔ اس کے نتیجے میں قائمہ کمیٹیوں کے فوری قیام کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ لیگی رکن کے بقول اسی طرح اصولی طور پر یہ بھی طے کر لیا گیا ہے کہ جب تک خواجہ سعد کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جاتے اپوزیشن پارٹیاں دونوں ایوانوں کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں گی۔ تاہم اس سلسلے میں باقاعدہ اعلان کیا جانا باقی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی این پی، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بی اے پی سمیت دیگر اتحادی پارٹیاں اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر حکومت سے علیحدہ ہونے کے لئے پرتول رہی ہیں۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ جن لوگوں نے انہیں حکومت کا اتحادی بنوایا تھا، ان کی طرف سے گرین سگنل نہیں مل رہا۔ بالخصوص قاف لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی اس سلسلے میں چاہتے ہوئے بھی کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں۔ لیکن اس صورت حال نے حکومت کو فکر مند ضرور کر دیا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر یہ پارٹیاں اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو جاتی ہیں تو اس کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ذرائع کے بقول بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل تو غیر اعلانیہ طور پر حکومت سے اپنے راستے الگ کر چکے ہیں۔ اس بات کا وہ نجی محفلوں میں اظہار کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں امکان ہے کہ اختر مینگل باقاعدہ اس کا اعلان بھی کر دیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More