کراچی(رپورٹ: راؤ افنان) سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشنل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی میں بغیر تصدیق کے داخلے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔گزشتہ 20 سال میں کسی ایک طالب علم کا بھی جعلی دستاویزات میں داخلہ منسوخ نہ ہوسکا۔ویریفکیشن کی مد میں 100 سے زائد ٹیکنیکل کالجز سالانہ 60 لاکھ روپے سے وصول کرتے ہیں، تاہم ویریفکیشن کسی طالب علم کی نہیں کرائی جاتی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشنل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے تحت فنی تعلیمی ادارے اسناد کی تصدیق کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کر گئے اور یہ سلسلہ گزشتہ 20برس سے جاری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سالانہ فی طالب علم 300روپے وصول کیے جا رہے ہیں، لیکن آج تک کسی بھی طالب علم کے تعلیمی اسناد کی تصدیق نہیں کرائی گئی،سالانہ بڑی تعداد میں طالب علم جعلی اسناد پر بھی داخلے حاصل کرلیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق سندھ بھر کے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے ڈپلومہ میں داخلہ حاصل کرنے والے فی طالب علم سے 300روپے تعلیمی اسناد کی تصدیق کے نام پر وصول کرتے ہیں۔ فنی تعلیمی اداروں میں سالانہ تقریباً27ہزارطالب علم داخلے لیتے ہیں،صبح کی شفٹ میں اس وقت داخلہ فیس تقریباً 4800،صبح کی شفٹ میں سیلف فنانس کی فیس 7550 اور شام کی شفٹ کی فیس 11950روپے کی قریب ہے، ان فیسوں میں 300روپے میٹرک پاس طلبہ کے میٹرک کی اسناد کی تصدیق کے لیے وصول کئے جاتے ہیں لیکن آج تک کسی بھی کالج نے ایک طالب علم کی بھی تعلیمی اسنادکی تصدیق کے لیے کسی بورڈ کو سند نہیں بھیجی ہوں یہ ساری رقم ہڑپ کی جاتی رہی ہے،گزشتہ 20برسوں کے اگر حساب لگایا جائے تو یہ رقم 16کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اب تک اس رقم کا آڈٹ رپورٹ میں ذکر تک نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق ہرسال بڑی تعداد میں طالب علم جعلی اسناد پر داخلے حاصل کرتے ہیں اور ان کی پکڑائی نہیں ہوتی ہے بلکہ متعدد طلبہ ایسے ہوتے ہیں جوجنرل گروپ سے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایسوسی ایٹ انجینئرنگ میں داخلہ حاصل کرلیتے ہیں جوغیر قانونی ہے لیکن ایسے کیسز میں بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے،اس سلسلے میں سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی کے چیئرمین ڈاکٹر مسرور احمد شیخ کا کہنا ہے کہ اسناد کی تصدیق کرانے کا کام بورڈ کا نہیں بلکہ کالجز کا ہے کیونکہ وہ اس بات کی فیس بلا امتیاز تمام طالب علموں سے داخلے کے وقت وصول کرتے ہیں،اگر کوئی طالب علم جعلی اسناد کی بنیاد پر داخلہ حاصل کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری متعلقہ کالجز پر ہے۔