مسمار کی گئی دکان سے10خاندانوں کی کفالت ہوتی تھی

0

عمران خان
کراچی میں انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن کے نام پر ایمپریس مارکیٹ کے اندر کے ایم سی کی جانب سے قائم کردہ جن الاٹ شدہ دکانوں کو مسمار کیا گیا، ان میں ایمپریس مارکیٹ کی معروف ’’سلمان کیمیکل‘‘ کی دکان بھی شامل تھی، جسے 1970ء سے قبل میر الٰہی پان والے نامی شخص نے کے ایم سی سے الاٹ کرواکر چلانا شروع کیا تھا۔ تاہم اب 35 برس سے یہ دکان میر الٰہی کے بیٹے محمد صالحین چلا رہے تھے۔ ان کی عمر 65 برس سے زائد ہے۔ آج کل محمد صالحین اپنی دکان کے ملبے کے ساتھ ہی لکڑیوں کا ایک کیبن بنا کر تھوڑا بہت سامان لئے بیٹھے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے صحن میں واقع اپنی دکان منہدم کئے جانے کا انہیں بہت قلق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قدیم دکان سے دس خاندانوں کی کفالت ہو رہی تھی۔
محمد صالحین نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نو بچوں کے باپ ہیں۔ سات بچے شادی شدہ ہیں، جبکہ انہیں ابھی دو بچوں کی تعلیم مکمل کرانے کے بعد ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں۔ سب بچوں کا روزگار اسی دکان سے وابستہ تھا۔ جبکہ اس دکان پر برسوں سے دو مزدور بھی کام کرتے چلے آرہے ہیں، جو دیہاڑی سے حاصل ہونے والی رقم جمع کر کے ہر مہینے اپنے بچوں کی کفالت کے لئے آبائی علاقوں میں بھجوایا کرتے تھے۔ محمد صالحین نے بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ میں دکان چلاتے ہوئے انہوں نے اپنی جوانی بتا دی اور اب آخری عمر میں ان کا کاروبار تباہ کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں ان کے والد کی دکان پوری ایمپریس مارکیٹ اور صدر کے علاقے میں ’’میر الٰہی پان والے‘‘ کے نام سے معروف تھی۔ پان کے پتوں کے علاوہ اعلیٰ کوالٹی کا چونا، کتھا اور چھالیہ کے علاوہ پان کے دیگر لوازمات کی خریداری کیلئے گاہکوں کی اکثریت ان ہی کی دکان پر آیا کرتی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے اپنی دکان میں کئی قسم کے کیمیکل رکھنا شروع کردیئے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ دکان کیمیکل کی فروخت کیلئے مشہور ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ہر وقت مختلف کیمیکلز کا لاکھوں روپے کا بھاری اسٹاک موجود ہوتا تھا، جس سے 10خاندانوں کی زندگی کی گاڑی احسن طریقے سے چل رہی تھی۔ لیکن اچانک انکروچمنٹ کے نام پر بپا کئے جانے والے آپریشن نے سب کچھ تباہ کردیا۔ آج وہ بے یقینی کی صورتحال سے دوچار اپنی دکان کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔ روز صبح آتے ہیں اور اندھیرا چھانے تک یہاں بیٹھے رہتے ہیں کہ شاید متبادل جگہ کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سننے کو مل جائے۔
بوڑھے محمد صالحین نے افسردہ لہجے میں کہا کہ…’’ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ انکروچمنٹ میں ہماری دکانیں کہاں سے آگئی۔ ان کی تمام دستاویزات خود ہمیں کے ایم سی کے افسران نے بنا کر دی تھیں اور ہر قسم کے واجبات اور فیسیں بھی وصول کی تھیں۔ تمام کاغذات ہمارے پاس آج بھی موجود ہیں۔ کے ایم سی کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ان دکانوں کی فائلیں موجود ہیں۔ اس کے باجود ہم پر یہ ظلم کیوں کیا گیا، اس کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ دکانیں مسمار کرنے سے کچھ دن پہلے ہی ہم سے ماہانہ رقم وصول کی گئی تھی۔ اگر دکانیں گرانی ہی تھیں تو رقوم کس لئے وصول کی گئیں۔ ایک کے ایم سی کے افسر نے 1990ء میں مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ کی دکان والد کے نام پر ہے۔ اس کو سرکاری طور پر اپنے نام پر ٹرانسفر کرالیں۔ کیونکہ ہم لوگ ریٹائرڈ ہونے والے ہیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ بعد میں آپ کیلئے کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے۔ ان افسر کے کہنے پر میں نے کے ایم سی کے تمام اقسام کے فارم اور چالان بھر دیئے اور جس طرح سے انہوں نے کہا، ادائیگی بھی کردی تھی۔ اس کے بعد کے ایم سی کے افسران نے دیگر دکانداروں کی طرح مجھے بھی دکان کی الاٹمنٹ کے کاغذ دیئے تھے۔ تو پھر آج ہماری دکانیں غیر قانونی کیسے ہوگئیں اور کے ایم سی والوں نے کس قانون کے تحت انہیں تجاوزات قرار دے کر مسمار کردیا۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More