نمائندہ امت
ملک میں ایل پی جی کا بحران مصنوعی ہے اور اس کی کوئی قلت نہیں ہے۔ ایل پی جی کی اسّی فیصد پیداوار مقامی ہے۔ جبکہ ملکی ضروریات کے لئے جو بیس فیصد درآمد کی جاتی ہے، وہ بھی اس سرد موسم کی ضرورت کے مطابق کی درآمد کی جارہی ہے۔ تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز مطمئن ہیں کہ شدید سرد موسم کے باجود ملک میں ایل پی جی کی کوئی کمی نہیں، لیکن اس کے باوجود صارفین کو 11.8 کلو گرام کا جو سلنڈر ملنا چاہئے، وہ اکثر مقامات پر دو ہزار روپے اور بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ مقامی ڈسٹری بیوٹرز کا موقف ہے کہ انہیں گیس مہنگے داموں مل رہی ہے، اس لئے وہ اسی ریٹ پر پیچنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک کے اندر گیس کی پیداواری کمپنیاں، بڑے ڈسٹری بیوٹرز اور ان کو کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے اورگرا بھی اس کا ذمہ دار ہے کہ، صارفین ڈیڑھ گنا اضافی قیمت دے کر گیس خریدنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے بقول ایل پی جی کی مقامی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے صرف دسمبر کے سولہ دنوں میں سوا ارب روپے سے زائد کمائی کی ہے۔ اور اگلے چند ہفتوں یا جنوری فروری 2019ء میں بارشیں ہونے کی صورت میں شدید سرد موسم میں یہ کمپنیاں اور ان کے مالکان پندرہ سے اٹھارہ ارب روپے صارفین اور غریب عوام کی جیب سے نکال لیں گے۔
ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عرفان کھوکھر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایل پی جی کی اسّی فیصد ضروریات ملک سے ہونے والی پیداوار سے پوری ہوتی ہیں۔ صرف پندرہ سے بیس فیصد گیس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس ماہ دسمبر کی ضروریات پورا کرنے کے لئے سات SHIPS نے آنا تھا۔ ان میں سے تین جہازوں کے ذریعے گیس آچکی ہے۔ چوتھا جہاز آج بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگا۔ جبکہ دیگر تین جہاز بھی اسی ہفتے اور اگلے ہفتے پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں عرفان کھوکھر نے کہا کہ ’’ملک میں گیس کا کوئی بحران یا کمی نہیں ہے۔ انتیس نومبر کو وزارت پٹرولیم میں ہونے والے اجلاس میں کئی مقامی کمپنیاں، جن میں او جی ڈی سی ایل اور پارکو وغیرہ شامل تھیں، نے تجویز دی کہ ملک میں گیس کی پیداوار کافی ہے، اس لئے اس کی درآمد پر پابندی لگائی جائے۔ تاہم یہ تجویز مسترد ہوگئی۔ اب تک کئی جہاز آچکے ہیں اور کچھ آرہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔
اوگرا ذرائع کے مطابق پی پی ایل، او جی ڈی سی، پارکو، ایم او یل، پی او ایل، پی آر ایل، این آر ایل، جے جے یو ایل اور بائیکو سمیت بعض دیگر کمپنیاں گیس کی مقامی پیداوار میں شامل ہیں۔ کمپنی مالکان میں اقبال زیڈ احمد، سابق سینیٹر عمار احمد خان، بیگم اعتزاز احسن اور سابق بیوروکریٹس اور ریٹائر فوجی افسران سیمت کئی بڑے نام شامل ہیں جو سردیوں کے موسم میں غیرقانونی طریقے سے قیمتوں میں اضافہ کر کے اربوں روپے ناجائز منافع کماتے ہیں۔ گو کہ اوگرا نے ایل پی جی کی فی کلو گرام اور 11.8 کلو گرام کے سلنڈر کی قیمت کا نوٹیفیکیشن جاری کر رکھا ہے۔ 30 نومبر 2018ء کو جاری اس نوٹیفیکیشن کے مطابق گیس کی فی سلنڈر قیمت 1338.78 روپے مقرر کی گئی ہے، جو یکم فروری 2018ء کی قیمت 1332/= روپے کے تقریباً برابر ہے۔ لیکن اوگرا کی عدم توجہی یا ملی بھگت سے 11.8 کلو گرام کا سلنڈر 1338 روپے کی بجائے دو ہزار روپے یا اس سے بھی زائد قیمت میں تمام بڑے شہروں میں بڑے دھڑلے سے فروخت ہو رہا ہے۔ نہ اوگرا کسی سے پوچھ رہی ہے اور نہ کسی دوسرے سرکاری ادارے کی اس جانب توجہ ہے۔ سردی کا بہانہ بنا کر گیس کی مہنگے داموں فروخت جاری ہے۔
اس کاروبار سے وابستہ اور تمام پس پردہ معاملات سے آگاہ ایک اہم ذمہ دار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اوگرا، ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن اور متعلقہ ادارے اور افراد باہمی ملی بھگت سے ناجائز رقم وصول کر کے اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق موجودہ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں کمی کر کے عام افراد اور عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی تھی، جو اس کاروبار سے وابستہ افراد نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ناکام بنادی ہے۔ لیکن حکومت کا کوئی وزیر، مشیر یا ذمہ دار اس کا نوٹس نہیں لے رہا۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (OGRA) جس نے ایل پی جی کی قیمت مقرر کی، اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اس قیمت پر گیس کی فروخت کو بھی یقینی بنائے۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہے اور مقامی انتظامیہ کی بھی مدد لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ اسے اپنے نوٹیفیکشن پر عمل کرانے سے کوئی سروکار نہیں اور کسی نہ کسی سطح پر وہ بھی اس لوٹ مار میں بڑے ڈسٹری بیوٹرز کا شراکت دار ہے۔ جو ملک میں گیس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اربوں روپے کی لوٹ مار کر رہے ہیں۔ ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے صدر عرفان کھوکھر کے مطابق گیس کمپنیاں اور ادارے ناجائز منافع کمارہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے عوام کو جو فائدہ دینے کی کوشش کی، ان اداروں نے وہ کوشش نہ صرف ناکام بنادی، بلکہ عوام 113 روپے فی کلو گرام کی بجائے تقریباً ڈیڑھ سور روپے فی کلو گرام گیس خریدنے پر مجبور ہیں۔