طالبان وفد-دوست ملکوں سے رابطے توڑنے کا امریکی مطالبہ مسترد

0

ابوظہبی/کابل(خصوصی رپورٹ/امت نیوز)طالبان نےدوست ملکوں سے رابطے توڑنے کاامریکی مطالبہ مسترد کردیا۔وفدنے ابوظہبی مذاکرات میں واشنگٹن کو دو ٹوک جواب دیا ہے کہ ترکی، روس اور ایران سے تعلقات ختم نہیں کر سکتے جبکہ افغانستان میں بھارتی کردار کسی صورت قبول نہیں۔دوسری جانب طالبان سے بات چیت کی امید میں افغان حکومتی نمائندے بھی امارات پہنچ گئے۔ٹیم کی سربراہی عبد السلام رحیمی کر رہے ہیں ، جنہوں نے گزشتہ روز امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ غیرقانونی افغان حکومت سے گفتگو نہیں ہو گی۔ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ طالبان سے مذاکرات میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز نہیں دی۔علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق6 ماہ کی جنگ بندی پر بھی اتفاق نہ ہونے کا امکان ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے جو بن پڑا کرینگے۔ تفصیلات کے مطابق ابوظہبی میں افغان امن مذاکرات منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہے جن میں طالبان سمیت فریقین نے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات میں امریکی حکام،افغان طالبان، پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں نے شرکت کی۔ امریکی وفد کی قیادت امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔افغان طالبان کے سیاسی دفتر کو گائیڈ لائن فراہم کرنے والی بارہ رکنی شوریٰ کے ایک اہم رکن نے ‘‘امت ’’کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے یہ محسوس ہورہاہے کہ امریکہ اس خطے میں ترکی، روس اور ایران کے کردار کو ختم کرنے کیلئے طالبان کو ان سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ سال میں نا صرف طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کئے بلکہ طالبان کو ایک قوت کے طور پر دنیا میں تسلیم کروانے کیلئے امریکہ پر دباؤ میں بھی اضافہ کیا ۔امریکی نمائندے کی جانب سے روس کا دورہ کر نے کے بعد ان کے نمائندوں کو ان مذاکرات میں شامل نہ کرنا امریکی عزائم ظاہر کر رہا ہے ۔گائیڈ لائن فراہم کرنے والی شوریٰ کے رکن کے مطابق یہ محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ بعض ممالک کے ساتھ ملکر افغان طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ناصرف روس کا ساتھ چھوڑ دیں ، بلکہ ترکی اور ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو ختم کر دیں ، جو طالبان کیلئے مشکل ہے ، کیونکہ ایسا کرنا ان ممالک کے ساتھ وعدہ خلافی ہو گی ۔ذرائع کے مطابق طالبان یہ شرط ماننے کے لئے تو تیار ہیں کہ افغان سرزمین امریکہ، مشرقی وسطیٰ کے ممالک روس ،پاکستان اور ایران کے خلاف استعمال نہیں ہو گی ، لیکن طالبان کو بعض ممالک کے ساتھ تعلقات سے روکنے کی باتیں کرنا طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ رکن شوریٰ نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے یہ دباؤ ڈالنا کہ بھارت کو افغانستان میں رول دیا جائے طالبان کی سمجھ سے باہر ہے ، کیونکہ بھارت کی نہ تو افغانستان سے کوئی سرحد ملتی ہے اور نہ ہی بھارت اور افغانستان کی ماضی میں کوئی بڑی کاروباری شراکت داری رہی ہے ، جبکہ ایران اور افغانستان کی ماضی میں بھی شراکت داری رہی ہے ، لیکن امریکہ ایران کو ان سارے معاملات سے دور رکھنے کی کوششیں کررہا ہے ، جبکہ بعض ممالک یہ تاثر دے رہے ہیں کہ طالبان کو انہوں نے مذاکرات پر آمادہ کیا ، جس سے نا صرف ان ممالک کی ساکھ دنیا میں خراب ہو جائے گی ، بلکہ اس سے طالبان کی ساکھ بھی کمزور ہورہی ہے ۔طالبان ترکی، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھیں گے اور مذاکرات امریکی انخلا،قیدیوں کی رہائی پر مرکو ز رہیں گے ، جبکہ اقتصادی ،حکومتی اور سیاسی امور بعد میں بھی حل ہو سکتے ہیں ۔ادھر افغان حکومت کے ترجمان ہارون چاکان سوری کے مطابق افغانستان کی حکومت کا ایک وفد بھی بات چیت میں شرکت کے لیے ابوظہبی پہنچا ہےجو کچھ دن امارات میں قیام کرے گا۔ٹوئٹر پر مختصر پیغام میں ترجمان نے کہا کہ مذاکرات کے لیے اعلیٰ نمائندے عبد السلام رحیمی کی سربراہی میں افغان مذکراتی ٹیم ابوظہبی پہنچ گئی ہے تاکہ وہاں طالبان نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کر سکے۔ذرائع کے مطابق افغان وفد زلمے خلیل زاد سے ملا۔امریکی نمائندے نے مذاکرات کی پیش رفت سے افغان حکام کو آگاہ کیا۔ طالبان نے امریکی اصرار کے باوجود افغان وفد سے ملنے سے انکار کردیا ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ غیر قانونی حکومت سے گفتگو نہیں ہو سکتی۔انہوں نے ایک بیان میں کہا طالبان وفد نے سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ سطح کے وفد سے اہم مذاکرات کیے۔ مذاکرات میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری آپریشنز کے خاتمے سے متعلق امور پر بات چیت کی گئی۔ اس کے علاوہ متعلقہ ممالک اور زلمے خلیل زاد سے بھی دن کے اختتام پر بات چیت ہوئی۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔ ترجمان ہیدی ہیٹن بیچ کے مطابق مذاکرات میں کسی بھی موقع پر زلمے خلیل زادنے صدارتی الیکشن کے بجائے عبوری حکومت کے قیام اور اس میں طالبان کی شمولیت کی تجویز پیش نہیں کی۔ذرائع کے مطابق طالبان چھ ماہ کی جنگ بندی نہیں چاہتے ۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے امریکہ اور افغان فورسز کو تقویت ملے گی۔ ذرائع کے مطابق ابوظہبی مذاکرات میں شریک طالبان نمائندے اپنی شوریٰ سے بات کریں گے اور شوریٰ سے بات چیت کے بعد دوبارہ زلمے خلیل زاد سے ملاقات کریں گے۔افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے امریکہ، طالبان مذاکرات کرانا افغان امن عمل میں پاکستان کا عملی قدم ہے، پاکستانی تعاون فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کے انعقاد کیلئے معاونت کی۔ ٹوئٹر پر پیغام میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئیے دستِ دعا بلند کریں کہ امن لوٹ آئے اور جری افغان عوام پر تقریباً 3دہائیوں سے پڑنے والی آزمائش کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ قیامِ امن کے لیے پاکستان سے جو بھی بن پڑے گا وہ کریں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More