پشاور/راولپنڈی(نمائندہ خصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک) افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دبئی مذاکرات میں پیش رفت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ طالبان اور امریکہ نے اپنے مؤقف پیش کر دیئے اور مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے، تاہم افغان حکومتی وفد کو طالبان نے گھاس نہیں ڈالی۔ پاکستان،سعودی عرب اور یو اے ای نے مزید معاونت کی یقین دہانی کرادی ہے۔مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پاکستان پہنچ گئے اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کوطالبان سے ہونے والی بات چیت پر اعتمادمیں لیا۔’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے طالبان اور امریکہ کے درمیان دبئی میں دو روزہ مذاکرات اختتام پذیر ہو گئے ہیں اور اگلا دور قطر میں ہو گا۔ رپورٹس کے مطابق مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے اور دونوں فریقوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ طالبان کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان طالبان نے امریکی انخلا ،قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کی، جبکہ امریکہ کی جانب سے حکومت میں شمولیت ،جنگ بندی اور صدارتی انتخابات کے حوالے سے بات چیت کی گئی ۔طالبان نے اس موقع پر امریکی وفد کو بتایا کہ ان کا بنیادی مطالبہ صرف اور صرف انخلا ہے ۔انخلا پر اگر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو جنگ بندی خود بخود ہو جائے گی جس کے بعد حکومت میں شمولیت ،افغان صدارتی انتخابات اور دیگر معاملا ت کا حل آسان ہوجائے گا ۔ طالبان اور حقانی گروپ نے افغان حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات کی امریکی تجویز کو مسترد کر دیا ۔پہلی بارطالبان اورحقانی نیٹ ورک پر مشتمل وفدشریک ہوا۔وفد میں شامل حقانی گروپ کے رہنماؤں میں اسد حقانی ، فقیر محمد اور محمد یحیٰ جبکہ طالبان رہنماؤں میں عامر خان متقی، ملا عباس اور صادق احمد شامل تھے۔امریکہ انخلا سے قبل اگر طالبان کے قیدی رہا کرنا چاہتا ہے تو طالبان افغان سیکورٹی اہلکاروں اور غیر ملکیوں کی رہائی کیلئے تیار ہیں ۔ذرائع کے مطابق پاکستان ،متحدہ عرب امارات اور سعودی حکام نے مذاکرات میں بھر پور معاونت فراہم کی اور آئندہ بھی مذاکرات میں معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔تینوں ممالک نے امریکہ اور افغان طالبان سے مذاکرات کامیاب بنانے کی درخواست کی ہےتاہم طالبان نے ایک بار پھر افغان سرکاری وفد کے ساتھ ملاقات نہیں کی اور انہیں گھاس تک نہیں ڈالی اور مذاکرات کے بعد طالبان نمائندے قطر روانہ ہو گئے ۔نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ 6ماہ میں انخلا کے لئے امریکہ پیشرفت کرے گا جبکہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مذاکرات کے آئندہ دور میں حتمی فیصلہ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔دوسری جانب مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی پاکستان پہنچ گئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سےملاقات کی ترجمان پاک فوج کے مطابق ملاقات کے دوران علاقائی سلامتی اورافغان امن عمل پر بات چیت کی گئی۔ زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل میں پاکستان کی کوششوں کوسراہا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے امریکی نمائندہ خصوصی کو خطے میں امن واستحکام لانے کی کوششیں جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطےمیں امن کیلئےکوششیں جاری رکھےگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے بہت اہم ہے مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کابل پہنچے اور صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو طالبان رہنماوں سے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا ۔مذاکرات کے اختتام پر طالبان رہنماؤں نے مذاکرات میں شامل سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے نمائندوں سے بات چیت کی ۔ افغان صدرکے ترجمان عمر دود زئی نے کہا کہ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور بہت جلد افغانستان میں امن کا دور آنے والا ہے ۔ کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمر دود زئی نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کامیاب سمت کی جانب جا رہے ہیں اور افغانستان میں حقیقی امن کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھو گے۔ انہوں نے کہا کہ امن کا یہ دور چند ماہ میں آ جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو طاقت سے ختم کرنے کا نظریہ غلط تھا ۔انہوں نے کہا کہ اب دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ طاقت ور ملک بھی طالبان کو ختم نہیں کر سکے مستقل قیام امن کیلئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے ۔ علاوہ ازیں امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پیلیڈینو نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا قیام جن وجوہات پر ہے ان کے دور ہونے تک فوج وہاں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ افغان حکومت کی معاونت اور افغان عوام کے بہتر مستقبل کا خواہاں ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ مذاکرت میں عبوری حکومت ، جنگ بندی اور الیکشن سے متعلق بات چیت نہیں ہوئی، جبکہ اس سے قبل یہ رپورٹس گردش کر رہی تھیں کہ طالبان رہنماؤں نے اپنے قید ساتھیوں کی رہائی قطر میں دفتر کا قیام اور بلیک لسٹ میں شامل رہنماؤں کا نام نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔طالبان کاکہناہے کہ متحدہ عرب امارات میں مذاکرات کے دوران عبوری حکومت، سیزفائر، الیکشن اور دیگر داخلی موضوعات کے بارے میں بات چیت نہیں ہوئی بلکہ امریکی جارحیت بحث کا محور رہی۔مذاکرات کے نتائج کیا برآمد ہونگے اور کس حد تک مسئلے کے پرامن حل میں مؤثر ہونگے، اس کے لیےوقت کاانتظارکرنا ہوگا ۔مگر فی الحال میڈیا، لکھاری اور تجزیہ نگار حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے مثبت اور پرامید رویہ رکھیں۔