سدھارتھ شری واستو
بھارتی نائب صدر ونیکیا نائیڈو سمیت درجنوں اراکین پارلیمنٹ نے محکمہ وائلڈ لائف، پولیس اور دیگر متعلقہ محکموں سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بندروں کے شر سے تحفظ فراہم کیا جائے، جو ان کیلئے پریشانی اور خوف کا سبب ہیں۔ ان کی شرارتوں سے وہ اور ان کی فیملیاں گھروں پر بھی محفوظ نہیں۔ بھارتی اراکین پارلیمنٹ کے مطابق بندروں کے غول ان کے لان برباد کرچکے ہیں۔ کچن میں گھس کر پھل، سبزیاں حتیٰ کہ پکا ہوا کھانا تک اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بندر اس قدر دیدہ دلیر ہو گئے ہیں کہ مسلح سیکورٹی گارڈز سے بھی نہیں ڈرتے۔ ادھر پولیس اور وائلڈ لائف محکمہ سمیت بندر پکڑنے والے ماہر شکاریوں کی کوششوں کے باوجود بھارتی نائب صدر اور اراکین پارلیمنٹ کی سرکاری رہائش گاہوں کے اطراف سے بندروں کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ہی وہاں سے ہٹایا جا سکا ہے۔ اس سے پریشان ہوکر نائب صدر ونیکیا نائیڈو اور اراکین پارلیمنٹ نے راجیا سبھا میں خصوصی بحث منعقد کرائی ہے اور پارلیمانی امور کے منسٹر آف اسٹیٹ وجے گوئیل کو اس سلسلے میں حکومت سے رابطے اور بندروں کی کارروائیوں کو فوری بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایک خصوصی سیشن میں بندروں کی کارستانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ونیکیا نائیڈو نے کہا کہ بندر اس قدر دیدہ دلیر اور بدمعاش ہیں کہ انسانوں پر حملوں سے بھی نہیں چوکتے۔ سرکاری گارڈز ان بندروں کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں جس سے حفاظتی اسٹاف، ڈرائیورز اور دیگر عملہ بھاگ نکلتا ہے۔ حملہ آور بندر ان کے کپڑے بھی اٹھا لے جاتے ہیں اور ان کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رات میں انہیں گھروں میں محصور رہنا پڑتا ہے، کیونکہ خوراک کی تلاش میں حملہ آور بندر سینکڑوں کی تعداد میں آ دھمکتے ہیں اور جب ان کو کچھ کھانے کو نہیں ملتا تو یہ تمام قیمتی پودے اور پھولدار جھاڑیاں کھا جاتے ہیں اور جو پودے کھانے لائق نہیں ہوتے، ان کو بھی توڑ کر گملے گرا دیتے ہیں۔ دکن کرونیکل کی رپورٹ کے مطابق دہلی شہر آوارہ بندروں سے اٹا پڑا ہے اور پولیس سمیت وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ صرف دہلی شہر میں بندروں کے حملوں سے ماہانہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ معمولی زخمیوں کی تعداد اس سے دوگنی بتائی جاتی ہے۔ ادھر پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مسٹر گوئیل کا کہنا ہے کہ دہلی بطور خاص بندروں کا نشانہ ہے، جہاں پہلے پارلیمنٹ ہائوس تک بندروں کی یلغار ہوتی تھی۔ لیکن اب پارلیمنٹ ہائوس سے بندروں کو ہٹایا جاچکا تو ان جانوروں کی ایک بڑی تعداد نے وزرا، نائب صدر اور اراکین پارلیمنٹ کی رہائش گاہوں کو ٹارگٹ کرلیا ہے۔ رکن اسمبلی اور انڈین نیشنل لوک دل کے سربراہ رام کمار کشیاپ نے پارلیمنٹ میں بندروں کی کارستانیوں اور اس کے سدباب پر منعقدہ خصوصی سیشن سے خطاب میں کہا ہے کہ حکومت کو پورے دیش میں بندروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی دہشت کو روکنے کیلئے حکمت عملی مرتب کرلینی چاہئے۔ کینکہ ا ب یہ معاملہ جانوروں کے حقوق سے انسانوں کے حقوق کا رُخ اختیار کرچکا ہے جس سے انسانوں کیلئے مسائل کا سامنا ہے جس پر فوری توجہ درکار ہے۔ ہندی جریدے امر اجالا نے بتایا ہے کہ تفریحی مقامات پر آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی بندروں نے ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں عالمی شہرت یافتہ تاج محل میں بندروں کے حملوں میں دو غیر ملکی سیاح خواتین سمیت 12 بھارتی شہری بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے بتایا ہے کہ بھارت بھر میں بندروں کی جانب سے نت نئے مسائل پیدا ہونا عام بات بنتی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے چنائے کی بندرگاہ پر دو بندروں نے ایک تجارتی مال بردار بحری جہاز کی روانگی کو دو روز موخر کرادیا۔ جریدے کے نمائندہ خصوصی نے بتایا ہے کہ چنائے بندرگاہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر نے وائلڈ لائف حکام کو جمعہ کو ٹیلی فون کرکے ارجنٹ مدد طلب کی اور بتایا کہ بندرگاہ سے مال بردار جہاز کو لازمی نکلنا ہے لیکن دو بندر اندر جہاز میں گھس کر بیٹھ گئے ہیں اور تلاش کے باوجود باہر نہیں نکلے۔ اس پر رینج آفیسر موہن لال کی نگرانی میںایک درجن آفیسرز اور بندر پکڑنے والے ماہرین نے بہتر گھنٹوں تک بندروں کو پکڑنے کی کوششیں کیں۔ لیکن بندر ان کو غچہ دے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتے پھرے۔ آخر کار یہ بندر خود ہی جہاز سے باہر بھاگ نکلے جس پر حکام نے سکھ کا سانس لیا اور مال بردار جہاز ہانگ کانگ کے عالمی سفر پر روانہ ہوا، تاہم تاخیر کے سبب کمپنی کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ادھر ایک انٹرویو میں وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی آف انڈیا کے سرکردہ رکن عمران صدیقی کا کہنا تھا کہ بندروں کی بڑھوتری روکنے کیلئے اگرچہ کئی ریاستوں میں ان کی نس بندی کا پروگرام شروع کیا گیا تھا، لیکن یہ پروگرام ناکام رہا۔ اب بندروں نے خوراک کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا سیکھ لیا ہے جہاں ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد اگر ان کو پھل دیتے ہیں تو اس کا کھلا مطلب یہی ہے کہ اس مقام پر درجنوں بندر آئیں گے اور انسانوں کیلئے مسائل بڑھیں گے۔ عمران صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں جا بجا پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ بھی بندروں کو دعوت دے کر شہر بلانے کے مترادف ہے۔
٭٭٭٭٭