زبیر خان
حالیہ الیکشن کے نتائج پر غیر سرکاری اداروں فافن اور پلڈاٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان اداروں کے صدور کے مطابق ملک بھر میں ایک سو ستّر حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل تشویشناک ہے اور اس پر شکوک و شبہات فطری ہیں۔ تحقیقات نہ کی گئیں تو سوالات بھی اٹھتے رہیں گے اور مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے اب تک ستّر حلقوں پر دوبارہ گنتی کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ تاہم غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ذرائع کے مطابق ان کو حاصل ہونے والی معلومات کے بعد اس وقت ملک بھر میں مجموعی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک سو ستّر حلقے ایسے ہیں، جہاں دوبارہ گنتی کرنے کے مطالبات موجود ہیں یا ان میں سے کئی پر دوبارہ گنتی کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں یا ان کے معاملات عدالتوں میں چلے گئے ہیں اور ان پر نتائج کو روک دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دوبارہ گنتی میں دیکھا گیا ہے کہ نواز لیگ کے امیدوار جو پہلے ناکام ہوئے تھے، کامیاب ٹھہرے ہیں۔ جبکہ اس وقت بھی ملک بھر میں جن اہم حلقوں پر دوبارہ گنتی کا عمل جاری ہے ان میں ابتدائی طور پر نواز لیگ ہی کے امیدواروں کی کامیابی سامنے آرہی ہے۔ تاہم یہ نتائج حتمی نہیں ہیں۔ اسی طرح کچھ حلقوں پر گنتی کے نتائج تبدیل بھی نہیں ہوئے اور ایک آدھ حلقے پر نون لیگ کے امیدوار کو شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فافن کے سربراہ سرور باری نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’فیفن کی جانب سے ملک بھر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں اور امیدواروں سے ملاقاتیں کی گئی ہیں، جن میں مسلم لیگ (ن)، ایم ایم اے، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انتخابات کے روز شام چھ بجے تک معاملات ٹھیک تھے۔ دھاندلی کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ ملکی اور بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک انتخابات پر امن اور سب کے موافق ماحول تھا۔ لیکن پولنگ کے بعد ہوا یہ کہ نتائج غیر متوقع طور پر تاخیر کا شکار ہوئے۔ اس کی وجہ الیکڑونک سسٹم کا بیٹھ جانا تھا، جس سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو انتخابات پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا‘‘۔ ایک سوال پر سرور باری کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت پچاس قومی اور ایک سو بیس صوبائی اسمبلی کے حلقے ہیں، جن میں دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے۔ سرور باری کے بقول ’’ہمارے جائزے کے مطابق ان قومی اسمبلی کے حلقوں میں تحریک انصاف کے چودہ لوگ کامیاب ٹھہرائے گئے ہیں، جن کی جیت کا مارجن گنتی میں شامل نہ کئے گئے ووٹوں سے کم ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے بھی ایسے دس ممبران شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے 26 اور تحریک انصاف کے 23 کامیاب ٹھرائے گئے امیدوار موجود ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ایم ایم اے اور دیگر پارٹیوں کے کچھ امیدواروں کو بھی ہے۔ یہ صورتحال کسی مخصوص پیٹرن کی نشان دہی نہیں کرتی، کیونکہ اس میں سب پارٹیوں کے امیدوار موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ایسا منصوبہ کارفرما نہیں، جس کا مقصد انتخابی نتائج کو تبدیل کرنا ہو‘‘۔ سرور باری کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے اور دیگر بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ دوبارہ گنتی کی طرف توجہ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے حلقوں میں دوبارہ گنتی ہو رہی ہے۔ انتخابات پر شکوک و شہبات بدترین انتظامی معاملات کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ سرور باری نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’’یہ کہنا کہ نون لیگ کچھ حلقوں میں دوبارہ پولنگ کے بعد جیت گئی، یہ ثابت نہیں کر رہا ہے کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے۔ پولنگ کے دن کے بعد بھی پولنگ کا عمل ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے۔ دیکھیں 2013ء کے انتخابات کے بعد اس اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد آخری ہفتے تک اپیلیں وغیرہ چلتی رہی تھیں۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ منصوبہ بندی کے مطابق دھاندلی تھی۔ ہمیں انتخابات کو اس کی مکمل تصویر کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ ہماری نظر میں اس وقت الیکشن کمیشن تیزی سے رسپانس کر رہا ہے اور یہ بھی کہ اس الیکشن کے بعد کی صورت حال ہمارے لئے سیکھنے کا موقع بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکڑونک سسٹم کے بیٹھ جانے کی تحقیقات کا بھی اعلان کیا ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’دوبارہ گنتی میں کوئی جیت جاتا ہے تو ٹھیک ہے، ہمیں قانون کی پاسداری کرنا چاہیے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے مراحل میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا اور بعد میں جب احساس ہوا تو اس غلطی کو ٹھیک کیا گیا۔ اس میں کوئی ایسی غلط بات نہیں ہے۔ ہم سیکھنے کے مراحل میں موجود ہیں۔
تھینک ٹینک پلڈاٹ کے احمد محبوب کے مطابق سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوالات اٹھنا یقیناً تشوشناک ہے۔ بہت سے لوگ شک کا اظہار کر رہے ہیں۔ گنتی میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور یہ ایسی چیز ہے کہ جب تک دوبارہ گنتی نہ ہو اور تحقیقات نہ کی جائیں تو کچھ کہنا مشکل ہے۔ مگر یہ سب چیزیں مل ملا کر بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھا رہی ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی غلطی ہو اور کوئی منصوبہ بندی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ایک شک ضرور پیدا ہوا۔ لہذا تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اب تحقیقات کا کیا طریقہ ہوگا، تو عام روایتی طریقہ شاید ہارنے والوں کو قبول نہیں ہوگا۔ پھر دوسرا طریقہ 2013ء کے انتخابات کی طرح کوئی جوڈیشنل انکوائری کمیشن بنانا ہے۔ اب یہ آنے والی حکومت اور اپوزیشن پر منحصر ہوگا کہ کیا کیا جائے۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’غیر معمولی صورت حال میں غیر معمولی اقدامات ہی اٹھانا ہوں گے۔ جوڈیشنل انکوائری کمیشن غیر معمولی اقدامات کی تحقیقات ہی کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ اگر تحقیقات نہیں ہوں گی تو پھر سوالات اٹھتے رہیں گے اور مسائل پیدا ہوتے رہیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭
Next Post