عباس ثاقب
ہم دونوں یاسر بھٹ کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب اس کی جلد آمد کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو ہم نے باہم مشورے سے یہ طے کیا کہ اپنے میزبان کے واپس لوٹنے کا انتظار کیے بغیر ظہیر منڈی گوبند گڑھ روانہ ہو جائے اور ناصر کو اعتماد میں لے کر جیپ کے ٹائروں کی تبدیلی والا معاملہ نمٹائے۔ اگر یہ بات کل شام سمجھ میں آ جاتی تو ناصر سے یہیں بات کر لیتے، شاید وہ جیپ پر ہی یہاں آیا ہوگا۔
لیکن پھر یاد آیا کہ کھوجیوں والی بات یاسر نے ہمیں ناصر کے منڈی گوبند گڑھ روانہ ہونے کے بعد بتائی تھی۔ یاسر بھٹ واپس لوٹ آیا۔ اس کے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ تھی۔ اس نے ہم سے مصافحے کے بعد اپنی نشست سنبھالتے ہوئے خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’مبارک ہو بھائی۔ امید سے زیادہ آسانی کے ساتھ مسئلہ حل ہو گیا اور توقع سے کہیں زیادہ رقم مل گئی‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے لباس کی اندرونی جیبوں سے باری باری بڑے نوٹوں کی گڈیاں نکال کر میرے سامنے ڈھیر کر دیں۔ ’’دراصل دو بیوپاریوں کے پاس کئی ماہ سے رقم پھنسی ہوئی تھی۔ وہ ہر بار تقاضا کرنے پر مزید مہلت مانگ لیتے تھے اور ان پر مکمل اعتبار ہونے کی وجہ سے میں بھی زیادہ زور نہیں دیتا تھا۔ اتفاق سے ان میں سے ایک کے پاس پہنچا تو وہ خود اپنے ذمے کی رقم لے کر میرے پاس آنے کی تیاری کر رہا تھا۔ لہٰذا بلا تاخیر کام بن گیا۔ البتہ دوسرے سے کچھ زور آزمائی کرنا پڑی۔ شکر ہے، محنت رنگ لائی اورکام بن ہی گیا‘‘۔
میں نے حیران لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو بہت زیادہ لگ رہے ہیں۔ کتنے ہیں یاسر بھائی؟‘‘۔
اس نے کسی قدر فخر کے ساتھ کہا۔ ’’بائیس ہزار!‘‘۔
مجھ سے پہلے ظہیر بول پڑا۔ اس کے لہجے میں جوش و خروش کی فراوانی تھی۔ ’’زبردست… یہ تو مسئلہ ہی حل ہو گیا! اب تو ہم کسی وقت بھی پٹیالے جاکر ان دونوں بہنوں کو آزاد کراکے لاسکتے ہیں‘‘۔
میں نے اس کی تائید کی۔ ’’بالکل ٹھیک، لیکن ہم اپنے طے کردہ وقت پر ہی وہاں جائیں گے‘‘۔ اس کے بعد یاسر کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’یاسر بھائی، یہ معاملہ تو ٹھیک ہوگیا، لیکن میں ایک اور نئے، لیکن سنگین خدشے سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہم نے پہلے آپ کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا، لیکن اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘‘۔
یاسر بھٹ نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے اسے الکھ سنگھ، امر دیپ سنگھ، جیپ اور ٹائروں کے نشانوں کا ممکنہ تعاقب کرنے والے کھوجیوں سے درپیش خطرے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے اپنی طے کردہ حکمتِ عملی کے بارے میں تفصیل سے بتا دیا۔ اس دوران میں ظہیر نے بھی میری باتوں کی مزید وضاحت کی۔
یہ سب سنتے ہوئے یاسر بھٹ کے چہرے پر پہلے حیرت، پھر جوش اور آخر میں تشویش کے تاثرات نمودار ہوتے دکھائی دیئے۔ مجھے لگا کہ اسے قتل کے اس معاملے میں رازدار بناکر شاید ہم نے کوئی غلطی کر دی ہے۔ لیکن پھر اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون کا غلبہ دکھائی دیا۔ ’’جمال بھائی، اگر کھوجیوں کی رسائی سے بچنے کے لیے اس ترکیب کے موثر ہونے پر آپ کو یقین ہے تو اس پر عمل کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ظہیر منڈی گوبند گڑھ جاکر ناصرسے ٹائر لے آئے گا‘‘۔
میں نے ممنون لہجے میں کہا۔ ’’شکریہ یاسر بھائی۔ ویسے جیپ کے چاروں ٹائر بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلے دونوں ٹائر بدلنے سے بھی کام چل جائے گا۔ کیونکہ جیپ چلتے ہی وہ ٹائر خود بخود اگلے ٹائروں کے نقوش پر سے گزر کر انہیں مسخ کرتے جائیں گے‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو آپ نے بالکل درست کہا۔ یعنی میرا کام تو پہلے ہی آدھا ہوگیا۔ اچھا میں چلتا ہوں‘‘۔
یاسر بھٹ نے کہا۔ ’’میری موٹر سائیکل بالکل فٹ فاٹ حالت میں ہے، تمہیں جلد منزل پر پہنچا دے گی۔ ضرورت پڑے تو راستے میں پیٹرول ڈلوا لینا!‘‘۔
ظہیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ اپنی موٹر سائیکل کا اپنی محبوبہ کی طرح خیال بھی تو رکھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی ہے، لیکن بالکل نئی لگتی ہے‘‘۔
یاسر نے کہا۔ ’’گاڑی اور بیوی کے معاملے میں بندے کو ایک ہی اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ بہترین دیکھ بھال کرو اور جہاں بھروسے کو ٹھیس لگے، جان چھڑالو!‘‘۔
یہ سن کر ظہیر اور میں نے مل کر قہقہہ لگایا۔ لیکن اس قول زریں کے مستند ہونے کا اعتراف بھی کیا۔
ظہیر کے رخصت ہونے پر یاسر بھٹ مجھ سے اجازت لے کر اپنی دکان پر چلا گیا۔ میری آمد کے بعد سے اس نے اپنے کام کو کم ہی وقت دیا تھا۔ تنہائی ہونے پر بہت دنوں بعد مجھے اپنے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔ رقم کے عوض رخسانہ اور جمیلہ کی رہائی کا معاملہ تو اب بظاہرآسان لگ رہا ہے، لیکن ان دونوں کی کشمیر منتقلی یقینی بنانے کے بعد کا مرحلہ ہرگز آسان نہیں۔ اپنی ادا کردہ رقم واپس حاصل کرنے کے لیے مانک کے ٹھکانے پر دھاوا بولنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اپنی دولت کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اس نے ہر ممکن اقدامات کیے ہوں گے۔ جن کا ہم پر اسی وقت انکشاف ہوگا۔ یہ کوشش ظہیر اور میرے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post