نجم الحسن عارف
سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور میں قائم سب کیمپس کے چیف ایگزیکٹو میاں جاوید کو گزشتہ شام سپرد خاک کر دیا گیا۔ تاہم جیل میں ان کی ہلاکت مزید پر اسراریت اختیار کر گئی ہے۔ جیل کے ڈاکٹر، سپرنٹنڈنٹ اصغر منیر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے علاوہ سیل میں میاں جاوید کے شریک ملزم اکرم کے بیان میں بھی تضاد پایا گیا ہے۔ میاں جاوید کے قریبی منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ میاں جاوید کا اپنے دونوں پارٹنرز سابق ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس اور چوہدری اکرم کے ساتھ کروڑوں روپے کے لین دین کا تنازعہ چل رہا تھا۔ جبکہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایڈیشنل آئی جی پولیس ڈاکٹر شفیق کے خلاف میاں جاوید نے درخواست بھی دے رکھی تھی۔ اس کیس میں مدعی کے وکیل منیر بھٹی ایڈوویٹ کے مطابق اس ماحول میں انہیں زہر دیئے جانے کے امکان کو بھی رد نہیں کر سکتے۔ مگر حتمی رائے پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی دی جا سکے گی۔
واضح رہے کہ میاں جاوید کو نیب نے ماہ اکتوبر کے شروع میں کرپشن کیس میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم احتساب عدالت نے میاں جاوید کا جسمانی ریمانڈ ختم کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر اور ممتاز دانشور چوہدری اکرم کے ساتھ مل کر غیر قانونی طور پر سب کیمپس کے مالکانہ حقوق حاصل کیے تھے۔ اس ملکیت میں میاں جاوید نے 2013ء میں دو مزید پارٹنرز کو شامل کر لیا۔ ان میں ایک ڈاکٹر شفیق اعلی پولیس افسر اور دوسرے چوہدری اکرم نامی فرد تھے۔ خیال رہے یہ چوہدری اکرم، سابق وائس چانسلر چوہدری اکرم نہیں، بلکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ جبکہ سابق وائس چانسلر چوہدری محمد اکرم عملاً سرگودھا یونیورسٹی کے بانی و معمار مانے جاتے ہیں۔ لیکن سرگودھا یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق نے جن کی اپنی تقرری میرٹ سے ہٹی ہوئی ہونے کے باعث پہلے دن سے متنازعہ سمجھی جاتی ہے، ذمہ داری سنبھالنے کے بعد نہ صرف یونیورسٹی کو ریورس گیئر لگا دیا، بلکہ سابقہ دور میں پرائیویٹ پارٹنرز کے ساتھ پارٹنر شپ کی بنیاد پر پانچ مختلف شہروں میں قائم کیے گئے سب کیمپسز کے مالکان سے رقم کا مطالبہ بھی شروع کر دیا تھا۔ انہی کی طرف سے مسائل پیدا کیے جانے میں ایک معاملہ سب کیمپسز کے طلبا و طالبات کے امتحانی نتائج اور ڈگریوں کے اجرا میں تاخیری حربہ بھی رہا۔ جس پر لاہور کے سب کیمپس کے طلبہ نے احتجاج کیا اور یوں یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں کے سامنے بھی آگیا۔ اسی سبب از خود نوٹس کے بعد نیب کو اعلیٰ عدالت نے جائزہ لینے کا کہا تو نیب میں باقاعدہ انکوائری شروع ہو گئی۔ بعد ازاں نیب نے ملنے والی شکایات پر چوہدری اکرم کو بھی حراست میں لیا تھا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے پنتالیس سالہ میاں جاوید بنیادی طور پر لا گریجویٹ تھے اور انہوں نے کئی سال قبل ساہیوال میں ایک نجی لا کالج چلا نا شروع کیا تھا۔ سرگودھا یونیورسٹی کی فرنچائز ملنے کے بعد لاہور منتقل ہو گئے اور یونیورسٹی کا سب کیمپس چلانے لگے۔ غیر معمولی منافع بخش کاروبار دیکھتے ہوئے جلد ہی دو اور پارٹنرز ان کے ساتھ مل گئے۔ جن میں اعلیٰ پولیس افسر ڈاکٹر شفیق اور چوہدری اکرم شامل تھے۔ میاں جاوید کے بھائی میاں نواز کے قریبی ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ پارٹنر شپ ڈیل 2013ء میں ہوئی۔ اس وقت سب کیمپس کی ویلیو کا اندازہ جان بوجھ کر کم تر یعنی صرف آٹھ کروڑ لگوایا گیا۔ میاں جاوید اور ڈاکٹر شفیق دونوں بڑے پارٹنر بنے، جن کے پاس برابری کی بنیاد پر اسّی فیصد کے شئیرز تھے۔ جبکہ تیسرے پارٹنر چوہدری اکرم کو بیس فیصد کے شئیرز دیئے گئے۔ بعد ازاں یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق نے نئے نئے مطالبات شروع کیے تو سب کیمپس کے مالکان کو دبائو میں لانے کے لیے طلبا و طالبات کا رزلٹ لیٹ کرنا شروع کر دیا گیا۔ طلبہ کے احتجاج کے نتیجے میں عدالت نے از خود نوٹس لیا جس کے بعد یہ سب کیمپس اور اس کے مالکان نیب کے ریڈار پر آگئے تھے۔ نیب لاہور نے اکتوبر میں انکوائری کے سلسلے میں بعض کو بلایا اور اسی موقع پر میاں جاوید کو حراست میں لے لیا گیا۔ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر ان تمام ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر لاہور کے کیمپ جیل بھجوا دیا گیا۔ بیس دسمبر کو اس جوڈیشل ریمانڈ میں سات جنوری تک کی توسیع ہو گئی۔ جوڈیشل ریمانڈ کی یہ مدت پوری ہونے سے پہلے ہی میاں جاوید کی جیل کے اندر موت ہو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں جاوید، ان کے چھوٹے پارٹنر چوہدری اکرم کے درمیان تنازعہ ہونے کے باوجود جیل حکام نے انہیں ایک ہی سیل میں بند کیا تھا۔
میاں نواز کے وکیل منیر بھٹی ایڈووکیٹ کے بقول چوہدری اکرم سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس ڈاکٹر شفیق کے ساتھ مفاداتی بنیادوں پر ایک گروپ تھے، اور اکثر فیصلوں میں میاں جاوید تنہا رہ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے تنازعات شروع ہو گئے۔ ایک سوال کے جواب میں منیر بھٹی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’فی الوقت میاں جاوید کی موت کے بارے میں کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ابھی تک ہمیں ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی نہیں ملی‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ جیل انتظامیہ کے مختلف ذمہ داروں کے بیانات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ جیل کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ایک رات پہلے میاں جاوید نے سردی میں غسل کیا تھا۔ جس سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں سردی لگ گئی۔ اس کی انہیں دوائی دے دی گئی تھی۔ جیل سے انہیں ہشاش بشاش سروسز اسپتال روانہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے اس بارے میں بیان کے حوالے سے بتایا کہ جو ضروری علاج معالجہ تھا، وہ جیل میں ہی کرانے کے بعد بھیجا گیا تھا۔ میاں جاوید کے سیل میں بند ان کے پارٹنر کے حوالے سے منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ چوہدری اکرم کا کہنا ہے کہ جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو اس نے سیل میں میاں جاوید کو مردہ پایا۔ منیر بھٹی نے اس حوالے سے اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں لگتا ہے کہ رات کو ہی میاں جاوید کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے ساتھ جو بندہ بند تھا، اس کے ساتھ ان کا تنازعہ بھی چل رہا تھا۔ اسی طرح اپنے دوسرے پارٹنر ڈاکٹر شفیق کے ساتھ کروڑوں کے لین دین کا تنازعہ تھا، کہ ڈاکٹر شفیق جن کی بیٹی کیمپس کے معاملات میں ان کی نمائندگی کرتی ہے، نے پارٹنر شپ کے شروع میں صرف ستّر اسّی لاکھ روپیہ دیا تھا۔ جبکہ بعد ازاں کوئی رقم نہیں دی تھی۔ ا س کے برعکس انہوں نے پانچ برسوں کے دوران کیمپس کے منافع سے چودہ کروڑ وصول ضرور کر لیا۔ اس لیے ہم پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ آنے تک موت کی وجہ کے بارے میں کوئی بات حتمی نہیں کہہ سکتے۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے اس سلسے میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو جیل کے فون نمبر پر سہ پہر تین بجے کے قریب فون کیا تو وہ موجودہ نہیں تھے۔ اسی طرح ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی جیل سے باہر تھے۔ ایک پراسرار موت کے بعد اگلے روز ہی دونوں جیل ذمہ دارران کا بیک وقت جیل اوقات کے دوران موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے۔ جبکہ آپریٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کی کسی انکوائری ٹیم کے پاس گئے نہ اب تک کوئی انکوائری ٹیم جیل آئی ہے۔ دوسری جانب جیل میں بند ملزم کی ہتھکڑی میں موت پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سمیت کئی دوسری تنظیموں اور پارلیمانی شخصیات نے نیب کی مذمت کی ہے۔ جبکہ نیب نے اس بارے میں دو ٹوک کہا ہے کہ تقریباً دو ماہ سے ملزم میاں جاوید جیل میں بند تھے۔ انہیں صحت مند فرد کے طور پر جیل حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ جیل میں کیا ہوا، کیسے ہوا اور ہتھکڑی لگانے یا کھولنے کے کسی بھی معاملے سے نیب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خیال رہے کہ جیل سے باہر جاتے ہوئے کسی بھی ملزم کو ہتھکڑی لگانے یا کھولنے کا اختیار پولیس کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ملزم کو مرنے کے بعد بھی ہتھکڑی لگانے کی ذمہ داری حقیقتا پنجاب پولیس پر ہے۔ جس کی اصلاح پی ٹی آئی حکومت کے اولین ایجنڈے میں شامل تھی۔
’’امت‘‘ کو میاں جاوید کے پس منظر سے متعلق قریبی ذرائع سے دستیاب معلومات میں بتایا گیا ہے کہ میاں جاوید کی عمر پنتالیس سال کے لگ بھگ تھی، مگر انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور شادیوں کے معاملات کی خود پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں لگے رہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ان کی زندگی کافی آسودگی کے ساتھ گزر رہی تھی۔ مگر ان کی اپنی شادی نہ ہو سکی۔ میاں جاوید کو ہفتے کی شام لاہور میں ای ایم ای سوسائٹی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭