محمد قاسم
افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوج میں سے نصف فوجیوں کے انخلا کی خبروں کے ساتھ ہی افغان سیکورٹی اہلکاروں نے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھا دیئے ہیں۔ گزشتہ دو روز میں مختلف صوبوں کے تین سو سے زائد سرکاری اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جبکہ مزید سینکڑوں اہلکاروں سرنڈر کرنے کیلئے تیار ہیں۔ دوسری جانب ملک میں خانہ جنگی شروع کرنے کیلئے افغان صدر نے طالبان کے دو مخالفین کو وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے طور پر نامزد کر کے مذاکرات کو ناکام بنانے کا پیغام دے دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق افغانستان سے نصف امریکی فوج کے انخلا کی خبروں کے بعد افغان سیکورٹی اہلکاروں نے طالبان سے رابطے بڑھانا شروع کر دیئے ہیں۔ گزشتہ دو روز میں کنڑ، نورستان، ننگرہار، فاریاب، ہلمند، جوزجان، پروان، بلخ، لوگر، غزنی اور میدان وردگ میں موجود تین سو سے زائد سیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور طالبا ن کے خلاف نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ افغان طالبان نے سرنڈر کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ کوئی تعرض نہ رکھنے کا عہد کیا ہے۔ افغان طالبان کے دعوت و ارشاد کمیشن کے مطابق ان تین سو سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں کارگزار مزید سرکاری اہلکاروں نے طالبان کے ساتھ رابطے کئے ہیں۔ دعوت و ارشاد کمیشن کے مولوی عارف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان سیکورٹی اہلکاروں کو کہا ہے کہ فی الحال وہ لڑائی نہ کریں، بلکہ اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں اور مذاکرات کے حتمی نتائج کا انتظار کریں۔ اگر افغان طالبان اور حکومت کے درمیان ایک ایسا معاہدہ تشکیل پا جاتا ہے، جس سے افغانستان کے اندر قیام امن ممکن ہوتا ہے اور سیکورٹی اہلکاروں کی قیادت طالبان کے ہاتھ میں آتی ہے تو یہ اہلکار افغانستان کے دفاع اور وطن کی تعمیر نو میں حصہ لیں گے۔ لیکن اگر امریکا نصف فوج نکال لیتا ہے اور باقی فوج افغانستان میں رکھتا ہے اور مذاکرات ناکام رہتے ہیں تو پھر افغان سیکورٹی اہلکاروں کو طالبان کا ساتھ دینا چاہیے۔ تاکہ ملک پر طالبان ایک اصلاحی اور اسلامی حکومت قائم کریں اور سیکورٹی اہلکار طالبان کا ہاتھ مضبوط کریں۔ دعوت و ارشاد کمیشن کے رکن مولوی عارف کے مطابق بڑے پیمانے پر سیکورٹی اہلکار ہتھیار ڈالنے کے لئے طالبان سے رابطے کر رہے ہیں۔ لیکن اتنی تعداد میں ہتھیار ڈالنا بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان سیکورٹی اہلکاروں کی جگہ بعض جنگجو اپنے لوگوں کو لانا چاہتے ہیں، جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب کابل حکومت نے دو سابق انٹیلی جنس چیفس کو وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کا قلمدان سونپنے کیلئے نامزد کر دیا ہے، جس سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں سابق انٹیلی جنس چیف ماضی میں طالبان کے ساتھ نہ صرف ذاتی بغض رکھتے ہیں، بلکہ طالبان کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کے مخالف ہیں اور پاکستان کے اندر بھی دونوں ماضی میں دہشت گردوں کی مدد میں ملوث رہے ہیں۔ واضح رہے کہ افغان صدر کی جانب سے جاری کردہ فرمان کے مطابق سابق این ڈی ایس چیف اسداللہ خالد کو دفاع کا وزیر بنا دیا گیا ہے اور ان کا نام افغان پارلیمان کو بھیج دیا گیا ہے۔ جبکہ سابق این ڈی ایس چیف اور شمالی اتحاد کے اہم رہنما امر اللہ صالح کو وزیر داخلہ کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہے اور ان کا نام بھی افغان پارلیمان بھیج دیا گیا ہے۔ افغان پارلیمان کا اجلاس جاری ہے، اور آخری اجلاس جنوری تک ہوگا، کہ اس کے بعد نئے پارلیمانی اراکین حلف اٹھائیں گے۔ تاہم افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان مخالف سابق افسران کو حساس اور اہم وزارتیں دینے کا عندیہ دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ اگر حکومت کو نظر انداز کیا گیا تو نہ صرف ملک میں خانہ جنگی ہوگی، بلکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی ناکام ہوسکتے ہیں۔ افغان پارلیمان کے ایک رکن احمد زئی جن کا تعلق ہلمند سے ہے، نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ وزیر دفاع اور داخلہ کے لئے دونام، توثیق کیلئے پارلیمان کو پہنچ گئے ہیں، تاہم اس کے باوجود اگر پارلیمان اس کی توثیق نہیں کرتی تو دونوں ناممزد وزرا اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ ادھر کابل میں ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق دونوں وزرا اتوار کے روز کابل میں اپنے دفاتر پہنچ گئے ہیں، جہاں انہوں نے اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورے شروع کر دیئے ہیں۔ ان دونوں سابق انٹیلی جنس چیف کی نامزدگی سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہونے، بلکہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات بھی سبوتاژ ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوج کے اچانک انخلا کی خبروں نے دیگر جماعتوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حزب وحدت، افغان ملت، دعوت اسلامی نے امریکا سے ایک میکنزم کے تحت افغانستان سے نکلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیونکہ ان کے اچانک نکلنے سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، ایران اور افغانستان پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی بھی اپیل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے امریکی افواج کی واپسی کی نگرانی کی جائے اور افغانستان میں خانہ جنگی کو روکا جائے۔ کیونکہ بعض ذرائع کے مطابق شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی اہم وزارتوں پر تعیناتی سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے اور شمالی اتحاد کے جنگجوئوں کو اسلحہ کی فراہمی بڑھ سکتی ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان اور ایران پر بھی مزید دبائو بڑھ سکتا ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی سے ہزاروں افراد کی زندگیوں کو خدشات لاحق ہیں۔ جبکہ ہزاروں افغانوں کی پاکستان اور ایران منتقلی کا بھی خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں شمالی اتحاد اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے باعث ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی دس لاکھ سے زائد لوگ افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے گھر چھوڑ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔