نجم الحسن عارف
ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی تحریک لبیک کے گرفتاری سے بچے رہنماؤں کو تلاش کیا جا رہا ہے، جس کے سبب ٹی ایل پی کے قائم مقام صدر شفیق امینی سمیت تمام کارکنان عملاً غیر فعال ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے تحریک لبیک کے اب تک زیر حراست سیاسی قائدین اور سیاسی کارکنوں سے وکلا کو ملاقات کی اجازت دی گئی ہے نہ اہل خانہ سے ملاقات کرائی گئی ہے۔ حکومت اور سیکورٹی سے متعلق اداروں کی طرف سے دباؤ کا ماحول جاری ہے۔ سی کیٹگری میں شامل کئے گئے کارکنوں کی اکثریت کو معافی نامے لے کر رہا کیا گیا ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی کو جیل میں دل کا دورہ پڑنے کے باوجود ان کی اہل خانہ سے ملاقات نہ کرانے کی حکومتی حکمت عملی جاری ہے۔ کئی رہنماؤں بشمول علامہ خادم حسین رضوی سولہ ایم پی او کے تحت نظر بندی کا ایک ماہ پورا ہوگیا ہے۔ تاہم ان رہنمائوں کی رہائی یا نظر بندی میں توسیع کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ رہائی سے بچے ہوئے کئی رہنما بھی روپوشی کے سبب عملاً غیر فعال ہیں۔ ضلع شیخو پورہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک ماہ کی نظر بندی کے بعد کئی کارکنوں کو جیلوں سے راہداری پر متعلقہ تھانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، تاکہ حکومت کے اگلے احکامات اور پالیسی کے مطابق ان کے خلاف مقدمات بنائے جاسکیں یا نظر بندی میں توسیع حاصل کی جا سکے۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ نظر بند رہنماؤں اور تحریک لبیک کے کارکنوں کے بارے میں اگلا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ ان کو رہا کیا جائے گا یا انہیں ابھی نظر بند رکھا جائے گا‘‘۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت فیملی کے ساتھ ہیں، لہذا وزیر قانون پنجاب سے معلوم کرلیں کہ وہ اس حوالے سے اپ ڈیٹ ہوں گے۔ ’’امت‘‘ نے صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ سے فون پر کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں لاہور کی ڈپٹی کمشنر صائمہ سعید سے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کے آپریٹر نے جواب دیا کہ میڈم کرسمس کی ایک تقریب کے لئے گئی ہوئی ہیں۔ اندازہ نہیں کب تک فارغ ہوسکیں گی۔ میڈم جب فارغ ہوں گی تو بات کرادوں گا۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی سمیت ان کی جماعت سے وابستگی رکھنے والے سیاسی کارکنوں کے اہلخانہ کی اس گزرنے والے ایک ماہ کے دوران حالت کافی خراب ہے۔ ٹی ایل پی کے سینکڑوں اسیر سیاسی کارکن اپنے اہل خانہ کے واحد کفیل تھے۔ بیشتر دکاندار یا روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے تھے۔ البتہ کئی کارکنوں کے اہلخانہ کی اس کسمپرسی میں ان کے بعض رشتہ داروں نے اور بعض کی دیکھ بھال پارٹی کے متمول افراد نے کرنا شروع کردی ہے۔ ایک اسیر رہنما کے بیٹے امین امجد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کو گرفتار ہوئے ایک ماہ ہوچکا ہے۔ پولیس، ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے، لیکن کوئی ملاقات کرانے کو تیار ہے نہ ہی انہیں دوائی اور کپڑے وغیرہ پہنچانے میں تعان کرنے پر آمادہ ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ ان کے والد کا نام بی کیٹگری میں ہے۔ امین امجد نے کہا کہ ’’میں ڈی سی آفس لاہور کے بھی چکر لگا چکا ہوں۔ لیکن ڈی سی سے ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔
’’امت‘‘ کو تحریک لبیک کے ایک رہنما اظہر شیخ نے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ تو پچھلے چھ ماہ سے علیل ہونے کی وجہ سے کہیں باہر نہیں نکلے اور نہ کسی سے رابطے میں ہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ اب تک کتنوں کی رہائی ہوئی ہے۔ البتہ قبلہ پیر افضل قادری کے صاحبزادے پیر عثمان قادری سارے معاملات تو دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس بارے میں بتا سکتے ہیں کہ کون کون رہا ہوا ہے یا نہیں اور کس کس کی نظر بندی میں توسیع کی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اظہر شیخ کا کہنا تھا کہ ’’میرا کردار بس مذاکراتی ٹیم کے حوالے سے تھا۔ اب کوئی مذاکرات ہی نہیں ہو رہے، اس لئے میں بے خبر ہوں‘‘۔
جب اس سلسلے میں ’’امت‘‘ نے پیر عثمان قادری سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہمیں حکومت نے کچھ معلومات فراہم ہی نہیں کی ہیں۔ اس وجہ سے صورتحال واضح نہیں ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ تحریک لبیک کے کل سیاسی اسیران کی تعداد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے تین ہزار تعداد بتائی ہے، لیکن یہ بہت کم ہے۔ کیونکہ ہماری تنظیم کے تقریباً سب ہی عہدیدار گرفتار ہوچکے ہیں۔ اس کے ہم درست اعداد و شمار مرتب تو نہیں کرسکے، لیکن خیال ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار کارکنان گرفتار ہوئے ہیں۔ یہ کسی بھی سول حکومت کے دور میں سیاسی کارکنوں کی اتنے تھوڑے وقت میں اور اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہیں‘‘۔ ان کے بقول ضلع گوجرانوالہ کے عہدیداروں کے حوالے سے حکومت نے 21 دسمبر کو نظر بندی میں توسیع کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ تاہم پیر افضل قادری کی نظر بندی کو پیر کے روز ایک ماہ ہوگا۔ ان کے بارے میں ابھی تک کچھ علم نہیں ہوسکا ہے۔
ادھر لاہور میں ڈی سی آفس سے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز آٹھ دس سیاسی کارکنوں کو معافی نامے داخل کرانے کی بنیاد پر رہا کیا گیا تھا۔ واضح رہے اس سے پہلے بھی لاہور کی بعض یونین کونسلوں سے تعلق رکھنے والے سی کیٹگری میں آنے والے اور معافی نامہ لکھ کر دینے والے سیاسی کارکنوں اور نچلی سطح کے عہدیداروں کو رہا کیا گیا تھا۔ ان رہائی پانے والے سیاسی کارکنوں کی طرف سے اب تک کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آئی ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں زیر نگرانی رکھنے کا جو اشارہ دیا گیا تھا، وہ اس کی وجہ سے مکمل خوف کی فضا میں ہیں۔ خیال رہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا رہنما نے ابھی تک تحریک لبیک کے ہزاروں اسیر کارکنوں کے حق میں کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی ہے۔