پیپلز پارٹی میں شمولیت دوست محمد کھوسہ کی مجبوری تھی

0

مرزا عبدالقدوس
مختصر سی مدت کے لئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے سردار دوست محمد کھوسہ ایک ایسے وقت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں جب ملک بھر خصوصاً پنجاب میں پی پی پر کڑا وقت آیا ہوا ہے، اور اس کی قیادت پر گرفتاری اور طویل سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی میں شمولیت اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے دوست محمد کھوسہ کی مجبوری تھی۔ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی جانب سے انہیں ہری جھنڈی دکھا دی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) میں لغاری گروپ ان کی پارٹی میں شمولیت کا مخالف ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی وفاقی وزیر زرتاج گل سے بھی ان کے اختلافات ہیں۔
دوست محمد کھوسہ کے والد سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار کھوسہ نے جب مئی 2018ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی تو پی ٹی آئی قیادت نے دوست محمد کھوسہ پر اداکارہ سپنا کے قتل کا الزام لگنے کی وجہ سے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ ایک قانونی مجبوری کے حل کے لئے محض چھپن (56) دن وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے سردار دوست محمد کھوسہ نے اس عہدے سے علیحدگی کے بعد شریف خاندان کے بارے میں جو جارحانہ رویہ اختیار کیا، اس کا نتیجہ کھوسہ خاندان کی مسلم لیگ (ن) سے دو ہائیوں پر مشتمل طویل سیاسی رفاقت کے خاتمے پر ہوا اور نواز شریف و شہباز شریف کے سینئر اور انتہائی بااعتماد دوست سردار ذوالفقار کھوسہ نے بھی خاندان سمیت اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔
سردار ذوالفقار کھوسہ کا پنجاب کی سیاست میں گزشتہ چند دہائیوں میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ خصوصاً 1993ء سے 2009ء تک وہ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے مدارالمہام رہے۔ اس دوران سینئر صوبائی وزیر رہے۔ صوبائی کابینہ کے اکثر وزرا، شہباز شریف انہی کے مشورے سے بناتے تھے۔ اکتوبر 99ء میں جب نواز شریف حکومت کا خاتمہ ہوا تو ذوالفقار کھوسہ گورنر پنجاب تھے۔ مشرف حکومت کا دور ابتلا کھوسہ خاندان نے پوری جرات اور استقامت سے گزارا۔ جب 2008ء میں نون لیگ نے پنجاب میں اکثریت حاصل کی تو ایک قانونی پیچیدگی کی وجہ سے شہباز شریف عام انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب نہیں ہو سکے تھے۔ انہیں ضمنی الیکشن میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر وزیر اعلیٰ پنجاب بننا تھا۔ اس مختصر سے عہدے کے لئے سردار ذوالفقار خان کھوسہ کی سفارش پر دوست محمد کھوسہ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ جواں سال دوست محمد کھوسہ نے تمام سیاسی حقائق سامنے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو واقعتاً وزیر اعلیٰ پنجاب سمجھنا شروع کر دیا۔ اس دوران ان کا حمزہ شہباز سے کئی بار تبادلوں اور تقرریوں پر تنازعہ بھی ہوا۔ جب دوست محمد کھوسہ وزارت علیا سے الگ ہوئے اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی شدید خواہش تھی کہ انہیں وزارت بلدیات و دیہی ترقی دی جائے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ جبکہ ان کی تقرریاں اور فیصلے بھی منسوخ کردیئے گئے، جس سے دوریاں پیدا ہوئیں اور کئی دہائیوں کا ذاتی و سیاسی تعلق بھی بڑھتے فاصلوں کے ساتھ ختم ہوگیا اور دوست کھوسہ کو نمائشی وزارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
2018ء کے الیکشن سے پہلے مئی میں سردار ذوالفقار کھوسہ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو تحریک انصاف نے ان کے بیٹے دوست محمد کو اداکارہ سپنا کے قتل کیس میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی میں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کھوسہ خاندان کے پاس اس وقت کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں تھا کہ وہ اس فیصلے کو قبول کریں۔ این اے 190، ڈیرہ غازی خان سے سردار ذوالفقار کھوسہ پی ٹی آئی کے امیدوار قومی اسمبلی تھے۔ لیکن اکہتر ہزار سے زائد ووٹ لینے کے باوجود آزاد امیدوار سے چند درجن ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔ جبکہ ڈیرہ غازی خان کے قومی اسمبلی کے ایک دوسرے حلقے این اے 191، سے آزاد حیثیت میں تقریباً ساڑھے اکتیس ہزار ووٹ لے کر دوست محمد کھوسہ تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ اس حلقے سے پی ٹی آئی کی امیدوار زرتاج گل جن کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے اور وہ شادی کے بعد اس علاقے میں منتقل ہوئی تھیں، محض عوامی روابط اور عام لوگوں کے مسائل سننے کی وجہ سے تقریباً اسّی ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سابق وفاقی وزیر سردار اویس لغاری ساڑھے چوّن ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔ پیپلز پارٹی کا امیدوار محض چھ ہزار ووٹ لے سکا تھا۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 289 پر دوست محمد کھوسہ آزاد امیدوار تھے اور تیرہ ہزار ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔ ان کے مقابلے پر نواز لیگ اور پی ٹی آئی امیدواروں کے ان سے زیادہ ووٹ تھے۔ جبکہ آزاد امیدوار محمد حنیف سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور انہوں نے حکمران جماعت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔
سردار دوست محمد کھوسہ کے والد سردار ذوالفقار احمد خان کھوسہ نے ساری زندگی بڑی باوقار سیاست کی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ڈٹے رہے۔ پرویز الٰہی کی وزارت علیا کے دور میں انہیں بڑے عہدوں کی آفر ہوئی، لیکن ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ تاہم اپنے بیٹے دوست محمد کھوسہ کے لاابالی پن اور جذباتی ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد کی محبت میں انہیں نون لیگ سے راہیں جدا کرنا پڑیں۔ دوست محمد کھوسہ پر اداکارہ سپنا سے شادی کرنے اور پھر اسے قتل کرنے کا الزام لگا اور اس کی گونج قومی میڈیا میں بھی سنی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے دوست محمد کھوسہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نواز لیگ کے دروازے بند ہو چکے۔ وہاں اب کھوسہ خاندان کی جگہ سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے براجمان ہیں۔ ان حالات میں دوست محمد کھوسہ کے پاس پی پی میں شمولیت کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں بچا تھا۔ اگر انہیں سیاست میں حصہ لینا تھا تو پی پی میں شامل ہونا مجبوری تھی۔ پھر لغاری خاندان کی علیحدگی کے بعد ان کے لئے پی پی میں گنجائش بھی موجود تھی۔ ان برے حالات میں پی پی کے لئے یہ خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک بڑے سیاسی خاندان کے سپوت نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے، جو قومی اور صوبائی کی چند نشستوں کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More