اسلام آباد(اخترصدیقی/ فیض احمد/ اسدہاشمی )اسلام آبادکی احتساب عدالت نمبردوکے جج ارشدملک نے سپریم کورٹ کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں اقامے کی سزاپر نااہل کیے جانے والے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کوباعزت بری کرکے قانون دانوں کوبھی ششدرکرکے رکھ دیا۔ میاں نوازشریف کی جانب سے اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کاقانونی حق بھی مل گیاہے ۔قومی احتساب بیورو(نیب)فلیگ شپ میں باعزت رہائی جبکہ میاں نوازشریف العزیزیہ ریفرنس کیس میں دی گئی سزاکے خلاف اسلام آبادہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے ۔اس کے لیے نیب چیئرمین نے پراسیکیوٹرجنرل نیب کوہدایات جاری کردیں، جبکہ میاں نوازشریف نے بھی خواجہ حارث ایڈووکیٹ سے مشاورت مکمل کرلی ۔اپیل بدھ کودائرکیے جانے کاامکان ہے ۔احتساب عدالت کے فیصلے پر وکلا برادری نے حیرانی کااظہار کیااور کہاہے کہ سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے کو احتساب عدالت کیسے ختم کرسکتی ہے جبکہ اس کیس میں عدالت نظر ثانی کی اپیل بھی مستردکرچکی ہے ۔اگراحتساب عدالت کافلیگ شپ ریفرنس پر دیاگیافیصلہ برقرار ررہتاہے تواس فیصلے کی روشنی میں میاں نوازشریف کواپنی تاحیات نااہلی کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائرکرنے کاموقع مل سکتاہے ۔ اس کے لیے قانونی شقوں کاجائزہ لیا جائے۔ان خیالات کااظہار بیرسٹرعلی ظفرایڈووکیٹ ،جسٹس (ر)فیاض احمد،جسٹس (ر)سلیم شیخ ،فائزہ ملک ایڈووکیٹ اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے روزنامہ ‘‘امت ’’سے گفتگوکے دوران کیا۔ بیرسٹرعلی ظفر ایڈووکیٹ نے کہاکہ احتساب عدالت نے حقائق کاجائزہ لینے کے بعدفیصلہ دیاہے ویسے بھی سپریم کورٹ نے کہہ دیاتھاکہ احتساب عدالت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ کرے ۔بعض سوالات بھی پیداہوئے ہیں جن کاآئین وقانون کی روشنی میں جائزہ لیاجاسکتاہے۔ ،جسٹس (ر)فیاض احمدنے کہاکہ سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف کوتاحیات نااہل قرار دے رکھاہے جبکہ احتساب عدالت نے انھیں کسی بھی عوامی عہدے کے لیے صر ف 10سال کے لیے نااہل قرار دیاہے ۔عدالت کاتفصیلی فیصلہ آئیگاتوتب ہی بہت سے سوالا ت کاجوابات بھی مل جائیں گے ۔احتساب عدالت نے کس بنیادپر انھیں رہااور کس بنیادپر سزاسنائی ہے ،جسٹس (ر)سلیم شیخ ایڈووکیٹ نے کہاکہ احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس سے بری کرنامیاں نوازشریف کوسپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی سزاپر قانونی سوالات پیداکرگیاہے ۔احتساب عدالت نے اقامے کی بنیادپر نااہلی تک کی سزانہیں دی اور صرف العزیزیہ میں ہی سات سال کی سزاسنادی گئی ۔ممکن ہے کہ احتساب عدالت نے خواجہ آصف کیس کی وجہ سے اقامہ میں سزا نہیں سنائی اور کیس سے بری کردیا۔جبکہ العزیزیہ کیس میں ٹھوس شواہدکی وجہ سے سزاسنائی گئی اور جرمانہ بھی عائدکیاگیاہے۔انھوں نے کہاکہ بعض معاملات میں بار ثبوت نیب پر ہے توبعض معاملات میں بار ثبوت ملزمان پر ہوسکتے ہیں ۔احتساب عدالت نے فیصلہ دے کر ایک بات ثابت کردی ہے کہ اگر عدالتیں چاہیں تومقدمات کوجلدسے جلدنمٹایاجاسکتاہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اور اب احتساب عدالت فیصلوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے توعدالت عالیہ اسلام آبادکے ایک فیصلے پر یہاں تک کہہ دیاتھاکہ عدالت عالیہ نے میاں نوازشریف سمیت دیگرکوکیوں رہاکیا اگر عدالت چاہتی توخود ہی اس کافیصلہ دے سکتی تھی ، مگر عدالت نے ایسانہیں کیا۔ فائزہ ملک ایڈووکیٹ نے کہاکہ احتساب عدالت سے ہمیں بہت سی توقعات تھیں مگر وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں تاہم عدالتی فیصلے سے یہ بات اور بھی کنفرم ہوگئی ہے اور کہ میاں نوازشریف کے خلاف بدعنوانی میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا ہے ۔ نیب سمیت تمام ادارے کوشش کے باوجودایساکچھ تلاش نہیں کرپائے کہ جس سے میاں نوازشریف کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائدکیے جاسکتے ،پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور اب احتساب عدالت کافیصلہ دونوں فیصلے ہی قابل غور ہیں ایک کیس میں سزادی جارہی ہے اسی کیس میں رہا کیا جارہا ہے ایک کیس میں تاحیات نااہلی ہے تواسی کیس میں دس سال کی نااہلی کی سزادی گئی ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجوداحتساب عدالت کے مختلف فیصلے سے میاں نوازشریف کوسپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کاقانونی حق دے رہاہے ۔اس لیے جلدسے جلد کوشش کی جائے کہ میاں نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دوبارہ سے دائر کریں اور اس کے لیے ماتحت عدالت کافیصلہ بھی ساتھ لف کریں ۔
٭٭٭٭٭