اصلاح کا ایک ذریعہ دل کی دنیا بدل دیتا ہے

0

محمد فاروق
دوستو …! آپ سے دلی معذرت کے ساتھ، آپ ایک اور واقعہ بھی سن لیں۔ اسی طرح کے ایک غوثِ دوراں کی ایک چھوٹی سی بات بیان کروں۔ ایک دیرینہ دوست ایک عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ پھر اس سے اس ’’پہاڑ کے باسی سنگ دل‘‘ اور اس ’’دیہات کے لا ابالی بے وفا‘‘ نے مطلب براری کے بعد منہ پھیر دیا تھا۔ بے چارہ عشق دوست، راہ وفا میں جب بے سر و ساماں رہ گیا، تو مستقل آہیں بھرنا، اس کا وطیرہ بن گیا تھا۔
خوک چی پہ لاری د وفا پاتی دےھغہ نیمکری نیمہ خوا پاتی دےپرون ئی کری وہ وعدہ د صبا نن خو صبا نہ دے صبا پاتی دےحمزہ چی پس د مرکہ ھم شتہ وصالدغہ ارمان پہ زرہ زما پاتی دے’’راہ وفا میں ناکام و نامراد، ٹوٹ کر رہ گیا ہے۔ اس سے کل وعدہ کیا گیا تھا کہ آج وصال ہوگا۔ مگر آج وہ کل نہیں۔ وہ کل ابھی باقی ہے۔ اگر موت کے بعد بھی وصال ممکن ہے تو حمزہ اس کے لئے بھی انتظار کر سکتا ہے کہ اس کی یہ آرزو ابھی رہتی ہے‘‘۔
امیر حمزہ خان شنواری تو حوصلے والے تھے، کہ موت کے بعد ہونے والے ممکنہ وصال کے لئے انتظار کر سکتے تھے، مگر ہمارا یہ دوست؟ آخر کب تک…؟
اپنی اصلاح اور سکون قلب کی خاطر اسی طرح ایک اللہ کے ولی کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس ولی اللہ کے سامنے اپنے مسئلے کے بارے میں کچھ بھی بتائے بغیر دعا کی درخواست کی۔ بابا جیؒ نے کچھ دن اپنے ساتھ ٹھہرنے کو کہا۔ وہ بھی یہی چاہتا تھا، کہ مرہم پٹی اور چارہ گری بہرحال وقت و صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی محفل میں ایک دن بابا جیؒ کے ایک بڑی عمر کے مرید نے کسی ’’بے وفا‘‘ کا قصہ سنایا۔ بابا جیؒ نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اسی دوست کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا:
’’بر خوردار…! یہ تو ہمارا وہ ’’دیہاتی لا ابالی بے وفا‘‘ اور ’’پہاڑی سنگ دل نکلا‘‘…! دیہاتی لا ابالی اور پہاڑی سنگ دل ہمیشہ ہی اسی طرح ہوا کرتے ہیں… مگر ہم ہیں کہ ان کے پیچھے سر، تن، من، دھن، ہتھیلی پر رکھ دینے کو وفا سمجھتے ہیں… وہ اپنا کام کر کے چلے جاتے ہیں۔ اور ہمیں اپنے اجڑے دیار کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا یارا نہیں ہوتا… ہے نا درست بات؟
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہکسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراکرفیق جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ بنو۔ کارکردگی کی رپورٹ لکھو۔ نمازوں اور مطالعہ کی تفصیل کا حساب دو۔ ناظم صاحب کے احتساب اور نظم کی پابندیوں کے ایک کڑے نظام سے گزرو… انکار نہیں کرتا کہ یہ اصلاح کا راستہ ہے…۔ اسی طرح بستر لیکر چھ چھ مہینے بلکہ برسوں پر محیط ’’مساجد نوردی‘‘ میں نفس و عیال کے تمام حقوق سے کامل بے نیازی کے ساتھ گردش ایام کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوکر شخصیت کی ایک نئی و نامانوس تخلیق کا کارنامہ انجام دینا بھی کچھ کم معرکت الآرا واقعہ نہیں۔ لیکن اصلاح نفس کے لئے کبھی اس غمزۂ خوں ریز پر بھی سوچا ہے؟ کہ یہ بھی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ بلکہ موثر ترین ذریعہ…۔ ایسا ذریعہ جس میں ایک ہی نظر میں، آن واحد میں دلوں کی دنیا بدل جاتی ہے؟
تم اسے پائے حقارت سے ٹھکراؤ، تو میں کوئی دلیل دینے اور منوانے میں بے بس ہوں…۔ لیکن خود ان حقائق کا انکار کروں… تو آکر کیسے؟
کوہاٹ بابا جیؒ نے ایک ایسے معاملے میں بھی ہمارے ظاہر شاہ صاحب کو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کچھ بتایا تھا۔ جس کا تصور نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ اس کی مثال اس سے پہلے کبھی موجود رہی ہے۔ کم از کم میں ذاتی طور پر اس قسم کے کسی خبر سے بالکل ’’بے خبر‘‘ اور ناواقف ہوں۔
وہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کیا تھا؟
کوہاٹ بابا جیؒ کی اس پیش گوئی کے بارے میں آگاہ ہو چکے ہیں، جس میں انہوں نے کوہاٹ ٹیکنیکل کالج میں پیش آنے والے بڑے ہنگامے کی پیشگی اطلاع ہمارے ظاہر شاہ صاحب، اس وقت کے کالج کے پرنسپل کو دی تھی… اور جو حرف بحرف درست بھی ثابت ہوئی تھی۔
ظاہر شاہ صاحب فرماتے ہیں: ’’ایک دن میں اپنے معمول کے مطابق کوہاٹ بابا جیؒ کی خدمت میں حاضر تھا۔ گفتگو میں کسی طرح موت اور حیات انسانی کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ بابا جیؒ فرمانے لگے کہ انسان جہاں جیتا ہے، کھاتا پیتا ہے، وہیں پر مرنا بھی پسند کرتا ہے۔ لیکن میں اپنے بڑوں پر حیران ہوں… اشارہ ان کے اس وقت کے روحانی بزرگوں کی طرف تھا… کہ وہ مجھے کہتے ہیں کہ تم سوات میں اپنے آبائی گاؤں ہی میں مرو گے اور وہیں دفن ہوگے۔ میں مسلسل انکار کرتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ موت ادھر ہی آجائے۔ دیکھو…! میں نے ان کے حکم سے تیس سنتیس سال اس بیابان میں گزارے ہیں۔ اب مرنے کے لئے سوات چلا جاؤں؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ ادھر تو شاید میرا جنازہ اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ بزرگ ہیں کہ بات مان نہیں رہے ہیں۔ اور بضد ہیں کہ ایسا ہی ہوگا۔ تم دعا کرو، اس ’’جھگڑے‘‘ کا کوئی بہتر حل نکل آئے۔ میں سوات میں مرنا نہیں چاہتا… میں ادھر ہی موت پر راضی اور خوش ہوں۔ مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بزرگ اگر نہیں مانتے تو ان کو ناراض کیا جا سکتا ہے نہ ان کی بات ٹالی جاسکتی ہے‘‘۔
پرنسپل صاحب نے جب یہ فرمایا تو، ان کی بات کو مزید آگے سننے سے پہلے مجھ سے صبر نہ ہوسکا۔ اور پھٹ پڑا کہ: ’’شاہ صاحب…! لگتا ہے اس بابا جیؒ اور اس کے بزرگوں نے نعوذ باللہ خدا سے سارے اختیارات چھین لئے ہیں اور اب موت و حیات کے انتہائی خدائی فیصلے بھی اپنے بل بوتے پہ کرنے پر بضد ہیں۔ قرآن نے تو صاف کہا ہے کہ:
’’اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ (سورۃ لقمان۔ 34)
یہاں اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان کی اس آیت اور علم غیب کے بارے میں مختصراً اسلام اور شریعت کے نقطہ نظر کو سمجھا جائے۔ ہمارے علمائے کرام، خاص کر متقدّمین مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہ موقف اختیار کر چکے ہیں کہ، مذکورہ آیات میں پانچ چیزیں ایسی ہیں… جن کا علم اللہ کی ذات تک محدود اور اس کے لئے خاص ہے۔
1۔ قیامت کا علم، کہ کب واقع ہوگی؟
2۔ بارش کب، کہاں اور کتنی ہوگی؟
3۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ لڑکا۔ لڑکی وغیرہ؟
4۔ کل کوئی کیا کام کرے گا؟
5۔ کسی کو موت کب اور کس زمین پر آئے گی؟
تاریخ میں ذکر موجود ہے کہ ایک دن بنی امیہ کے بادشاہوں میں سلیمان بن عبدالملک بڑی پریشانی کے عالم میں دربار میں آیا اور داخل ہوتے ہی اہل علم سے دریافت کرنے لگا کہ میں نے رات کو خواب میں موت کا فرشتہ دیکھا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میری موت کب واقع ہوگی۔ تو اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنی پانچ انگلیوں کا اشارہ دیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ پانچ دن ہیں، پانچ ہفتے، مہینے یا سال؟ دربار میں موجود اہل علم نے مختلف جوابات کے ذریعے بادشاہ کی تسلی کرانا چاہی۔ مگر وہ مطمئن نہ ہوا۔ آخر ایک صاحب علم نے بتایا کہ امیرالمومنین! اصل میں آپ کے سوال کے جواب میں فرشتے نے پانچ انگلیوں سے ان پانچ حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو علم غیب ہے، اور جس کا علم خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ اس پر سب نے اتفاق کیا اور بادشاہ مطمئن ہوا۔ یہ اور ایسی ہی روایات قدیم تفسیروں میں چلی آرہی ہیں۔ اور ان پانچ چیزوں کا مطلق علم غیب ہونا… اور ان کا خدا کی ذات تک محدود ہونا گویا ایک طرح سے ’’متفق علیہ‘‘ ہے۔ مگر مشکل یہ پیدا ہوئی کہ جدید سائنسی ترقی نے پہلے ایکسرے اور اب الٹرا ساؤند کی مدد سے ماں کے پیٹ میں بچے کے نر یا مادہ ہونے۔ اور صحیح سلامت ہونے یا نہ ہونے کی دوسری تفصیلات تک رسائی حاصل کرلی۔ محکمہ موسمیات والے اب سائنس کی مدد سے تقریباً برسوں کا موسم اور بارشوں کے اوقات، مقامات اور ان کی شدت و مقدارات کے بارے میں پہلے سے بتادیتے ہیں۔ حتی کہ قیامت… یا دوسرے الفاظ میں اس زمینی یعنی ہمارے نظام شمسی کے کسی ’’ممکنہ خاتمے‘‘ کے اندازے لگانا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ اور سائنس دان اس سورج کے اس وقت کا ممکنہ حساب لگا رہے ہیں، جب یہ اپنی تمازت کی جوہری خاصیت کھودے گا اور زمین پر زندگی ممکن نہیں رہے گی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More