کابل کے ریڈزون میں 375 افراد10 گھنٹے یرغمال بنے رہے

0

محمد قاسم
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تین مسلح افراد نے 10 گھنٹے تک 375 افراد کو یرغمال بنائے رکھا۔ امریکی سفارتخانے کے قریب اور صدارتی محل کے سامنے ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کی عمارت پر قبضے کے بعد سینکڑوں افغان فوجیوں سے لڑتے رہے اور گولیاں ختم ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ کابل حکومت نے حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔ تاہم طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان عوام اور پوری دنیا کے مسلمان تسلی رکھیں، طالبان ایک بھی امریکی فوجی کی موجودگی میں کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔
گزشتہ روز افغانستان کے گرین زون یعنی صدارتی محل، وزارت داخلہ اور امریکی سفارتخانے کے سامنے واقع ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کی عمارت پر مقامی وقت کے مطابق تین بج کر بارہ منٹ پر ایک کار بم دھماکے کے بعد تین حملہ آور عمارت میں داخل ہو گئے اور انہوں نے رات کے ایک بجے تک تقریباً سینکڑوں افغان فوجیوں کے ساتھ لڑائی لڑی اور گولیاں ختم ہونے پر خود کو دھماکوں سے اڑا لیا۔ افغان فوج اور خودکش حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں تقریباً پچاس سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹے، جن میں اٹھارہ خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔ تادم تحریر بیالیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جن میں سے اکثر کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ جبکہ کئی افراد ریڈ زون میں واقع حساس دفاتر سے کودنے کی وجہ سے زخمی ہوئے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان کمانڈوز اور تین مسلح شدت پسندوں کے درمیان دس گھنٹے تک لڑائی رہی اور اس دوران حملہ آوروں نے 375 افراد کو یرغمال بنائے رکھا۔ ذرائع کے بقول امریکی حکام نے اپنے سفارتخانے کی حفاظت کیلئے کمانڈوز طلب کرلئے تھے، لیکن افغان سیکورٹی اہلکاروں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ گرین زون میں پہلی بار امریکا نے کسی آپریشن میں حصہ لینے سے انکار کیا اور صرف اپنے سفارتخانے کی حفاظت کیلئے حصار بنایا۔ امریکی سفارتخانے اور ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ایک سڑک حائل ہے، اس لئے امریکا کو خدشہ تھا کہ مسلح افراد وہاں سے سفارتخانے پر راکٹ فائر کر سکتے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلح افراد کے پاس راکٹ نہیں تھے، لہذا ان کے اور افغان فوج کے درمیان دس گھنٹے تک فائرنگ جاری رہی۔ اس دوران سیکورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد مارے گئے اور افغان سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت کا بھرم کھل گیا کہ تین حملہ آور نے افغان فوج کے سینکڑوں اہلکاروں کو دس گھنٹے تک مصروف رکھا اور ساتھ 375 سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنائے رکھا۔ تاہم گولیاں ختم ہونے پر مسلح افراد نے خود کو دھماکوں سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کے کئی دفاتر تباہ ہو گئے اور تمام ریکارڈ بھی خاکستر ہو گیا۔ کئی لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق موقع پر بیالیس افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ باون سے زائد افراد کو مختلف اسپتالوں میں لایاگیا۔ ابتدا میں کابل حکومت نے کہا تھا کہ افغان فوج نے مسلح افراد پر قابو پا لیا ہے اور ایک شخص جاں بحق ہوا ہے۔ تاہم منگل کی صبح آنے والی اطلاعات کے مطابق رات کو پورا کابل دھماکوں سے لرز اٹھا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق کابل کے شہریوں نے رات جاگ کر گزاری۔ صبح ورکس اینڈ سروسز ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر کو ملبے کا ڈھیر بنے دیکھا۔ کابل حکومت نے حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔ تاہم طالبان نے افغان حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے افغان حکومت کی سیکورٹی پر سوالات اٹھائے ہیں کہ کابل کے گرین زون میں شدت پسندوں کے پہنچنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغان حکومت گرین زون جیسے علاقے میں بھی سیکورٹی کرنے میں ناکام ہے۔ لہذا افغان حکومت عوام کی جان و مال کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی۔ افغان طالبان کے میڈیا کمیشن نے ایک معروف اخبار میں جاری بیان میں کہا ہے کہ طالبان افغان عوام سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ ایک بھی امریکی فوجی کی موجودگی میں کوئی سیاسی معاہدہ نہیں کریں گے۔ افغان طالبان اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ جب تک امریکی اس سرزمین پر ہیں، کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سات ہزار فوجیوں کے انخلا کے اعلان سے طالبان پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ افغان طالبان کی پالیسی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ افغان طالبان ماضی میں ان حالات سے بخوبی واقف ہیں کہ روس کے بعد افغانستان کے عوام کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ لیکن اب یہ دھوکا نہیں دہرایا جائے گا۔ کابل حکومت کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ امریکا کی مسلط کردہ حکومت ہے، جسے افغان طالبان تسلیم نہیں کریں گے۔ افغان طالبان امریکا کو صرف ایک ہی صورت میں محفوظ راستہ دینے کیلئے تیار ہیں کہ وہ مکمل انخلا کرے۔ انخلا کے بعد کا فیصلہ افغان طالبان کی شوریٰ کرے گی۔ اٹھارہ برس کی جدوجہد کا یہ مطلب نہیں کہ جہاد کے ثمرات کو میز پر ضائع کر دیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More