ٹی ایل پی کے 46 عہدیداروں کی نظر بندی میں ایک ماہ کی توسیع

0

مرزا عبدالقدوس
پنجاب حکومت نے لاہور سے گرفتار تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی، ان کے بیٹے قاسم علی اور پیر اعجاز اشرفی سمیت چھیالیس قائدین و عہدیداروں کی نظر بندی میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ جبکہ ان سمیت پنجاب سے کیٹیگری اے میں گرفتار افراد جن میں پیر محمد افضل قادری بھی شامل ہیں، ان کی تعداد 325 ہے۔ ابھی تک ان گرفتار افراد کی کسی سے ملاقات کرائی گئی ہے اور نہ ان کی جلد رہائی کا امکان ہے۔ کیٹیگری بی میں شامل ملک ممتاز قادری شہید کے بھائی ملک سفیر اعوان بھی بھکر جیل میں ہیں۔ ان کی نظربندی میں بھی پندرہ دن کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ان کے خاندان کے کسی فرد کی تاحال ان سے ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈیفنس آف پاکستان کے چیئرمین حافظ احتشام احمد کو تحریک لبیک کی قیادت سے ملاقات کی ہدایت کی تھی۔ ان کے رابطہ کرنے پر چیف سیکریٹری پنجاب نے حافظ احتشام احمد سے علامہ خادم حسین رضوی سے ملاقات کے لئے پانچ افراد کے نام طلب کئے۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ابھی اس ملاقات کے بارے میں رابطہ کرنے کے باوجود انہیں جواب نہیں دیا جارہا ہے۔ حافظ احتشام احمد کے مطابق اس سلسلے میں اب انہوں نے معزز عدالت سے دوبارہ رابطہ کیا ہے۔
پنجاب حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بائیس، تیئس نومبر اور اس کے بعد تحریک لبیک کے تقریباً اکتیس سو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں کیٹیگری سی کے انیس سو افراد رہا کئے جا چکے ہیں۔ کیٹیگری بی میں نو سو افراد شامل ہیں، جن کی جلد رہائی متوقع ہے۔ جبکہ تین سو پچیس افراد جن کے نام کیٹیگری اے میں شامل ہیں، ان کی فوری رہائی ابھی کافی مشکل ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہیں۔ ان افراد پر نہ صرف لوگوں کو اشتعال دلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے، بلکہ آئین و قانون سے ماورا اقدامات کرنے کی اعلانیہ ترغیب دینے اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کا بھی سنگین الزام ہے۔ بعض مقدمات میں چند افراد پر بغاوت کے مقدمات کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان معاملات کے حل میں شریک ایک اہم ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بعض تفتیشی افسران اور محرر حضرات نے ایسے گرفتار افراد کے نام بھی مقدمہ کے اندراج کے وقت کیٹیگری اے میں شامل کر دیئے، جو اس نوعیت کے سنگین الزام میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن کسی اور تفتیشی افسران سے تعاون نہ کرنے کے جرم میں ان پر بھی سنگین دفعات لگا کر انہیں کیٹیگری اے میں شامل کر دیا گیا، جو اب ان کی رہائی میں رکاوٹ ہیں۔
ملک ممتاز قادری شہید کے والد ملک محمد بشیر اعوان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے بیٹے ملک سفیر کو ممتاز قادری شہید کے مزار کے احاطے سے رات کی تاریکی میں بائیس نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب وہ گزشتہ چند ہفتوں سے بھکر جیل میں ہے، لیکن اس دوران ہمارا اپنے بیٹے سے نہ براہ راست رابطہ ہوا ہے اور نہ ہی کوشش کے باوجود ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے اس سے ملاقات کے لیے اجازت نامہ جاری کیا ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ ہم تحفظ ناموس رسالت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن قانون پسند شہری ہیں۔ میرے بیٹے کو مزار کے احاطے سے گرفتار کر کے بے بنیاد مقدمے میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ اس ظلم کا حساب بھی اس حکومت اور انتظامیہ کو دینا ہوگا‘‘۔
چیئرمین ڈیفنس آف پاکستان حافظ احتشام احمد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شہزاد احمد خان کے احکامات کے بعد میں نے چیف سیکریٹری پنجاب سے رابطہ کر کے علامہ خادم حسین رضوی، پیر محمد افضل قادری یا کسی بھی دوسرے رہنما سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ اگلے روز چیف سیکریٹری پنجاب کے لاہور آفس سے مجھے ٹیلی فون کر کے علامہ خادم حسین رضوی سے ملاقات کے لیے پانچ افراد کے نام نام طلب کئے گئے۔ ٹی ایل پی کی دستیاب قیادت سے مشاورت کے بعد میں نے اسی دن پانچ افراد کے نام تحریر کرا دیئے۔ لیکن اس کے بعد مسلسل رابطہ کرنے کے باوجود مجھے مثبت جواب نہیں ملا، جس کے بعد میں نے اب دوبارہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی ہے کہ پنجاب حکومت کو تحریری احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ علامہ خادم حسین رضوی سے ملاقات کے انتظامات کرے‘‘۔ حافظ احتشام احمد کے مطابق علامہ خادم حسین رضوی پچھلے دنوں شدید علیل تھے۔ اب سخت سرد موسم میں انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے کم از کم ایک بااعتماد ساتھی یا خاندان کے کسی فرد کو ان کے ساتھ مستقل رہنے کی اجازت دی جائے اور انہیں جیل سے اسپتال منتقل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان گرفتار افراد کی نظر بندی میں مزید تیس دن کی توسیع ان پر دبائو ڈال کر تحفظ ناموس رسالت کے عظیم مشن سے ان کے موقف کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن حکمراں علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر عاشقان مصطفیؐ کو ان کے راستے سے ہٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ممتاز عالم دین مفتی عبدالقوی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب میں ڈی آئی جی جیل خانہ جات اور دیگر صوبائی حکام سے لاہور میں ملاقات کی تھی تو انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ کیٹیگری اے اور بی کے تمام افراد دو دن میں رہا ہو جائیں گے۔ لیکن میرے ساتھ غلط بیانی کی گئی اور ایسا نہیں ہوا۔ میں ان دنوں کراچی میں مصروف ہوں۔ سندھ حکومت نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اس نے تحریک لبیک سے وابستہ تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا ہے۔ میں نے پرسوں جمعہ جھنگ میں پڑھانے کے بعد لاہور جانا ہے۔ صوبائی انتظامیہ سے ملاقاتیں کروں گا اور اگلے ہفتے انشاء اللہ کیٹیگری بی کے نو سو افراد بھی پنجاب کی مختلف جیلوں سے رہا ہو جائیں گے۔ اس وقت کیٹیگری سی کے تمام انیس سو افراد رہا ہو چکے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر مفتی عبدالقوی نے کہا کہ ’’ویسے تو کیٹیگری اے میں سوا تین سو افراد شامل ہیں، لیکن ان تمام افراد کے جرم کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہے۔ بعض افراد کو پولیس حکام نے ذاتی تعصب کی بنیاد پر اس کیٹیگری میں ڈال دیا۔ ان افراد کی رہائی بھی جلد ممکن ہے۔ اور کیٹیگری بی کے افراد کی رہائی کے بعد ان کو بھی رہائی دلائوں گا۔ البتہ بعض قائدین جنہوں نے سخت زبان استعمال کی، ان کا معاملہ ذرا سخت ہے اور رہائی میں وقت لگے گا‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More