افضل کھوکھر کی گرفتاری شریف برادران کے لئے دھچکا

0

امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر کی گرفتاری کو شریف برادران کے لئے ایک دھچکے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ منگل کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایم این اے افضل کھوکھر اور ان کے بھائی ایم پی اے سیف الملوک کے خلاف ناجائز قبضوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے بعد عدالت سے نکلتے ہی پولیس نے قبضے کے مقدمے میں افضل کھوکھر کو گرفتار کرلیا۔ افضل کھوکھر کے خلاف یہ مقدمہ نواب ٹائون تھانے میں برطانیہ میں مقیم محمد علی ظفر نے درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کئی برس قبل طارق محمود نامی شخص سے اس نے 34 مرلہ زمین خریدی تھی، تاہم اب اس جگہ پر افضل کھوکھر کا محل تعمیر ہو چکا ہے۔
جوہر ٹائون میں مقیم مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک سابق عہدیدار نے بتایا کہ پچھلی قریباً دو دہائیوں سے ملک شفیع، سیف الملوک اور ملک افضل پر مشتمل کھوکھر برادران کا ٹرائیکا لاہور کے معروف جوہر ٹائون اور گرد و نواح کے دیگر علاقوں کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے۔ ان اٹھارہ، بیس برسوں میں کھوکھر برادران نے کئی سو ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا۔ ان میں بیرون ملک مقیم افراد اور بیوائوں کے پلاٹس شامل ہیں۔ عہدیدار کے مطابق کھوکھر برادران نے چونکہ شروع سے ہی اپنی وابستگی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ساتھ رکھی۔ لہٰذا تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے شہباز شریف کے بالخصوص آخری دو ادوار کھوکھر برادران کے عروج کا سنہری عرصہ تھا۔ اس دور میں ایل ڈی اے کے بعض افسران، ٹی ایم اوز، پٹواریوں اور پولیس کی مدد سے کھوکھر برادران کی جانب سے اپنی اراضی میں اضافے کا سلسلہ دھڑلے سے چلتا رہا۔ 2010ء میں بعض متاثرین نے واویلا کیا تو یہ معاملہ ہائی لائٹ ہوا، لیکن دوبارہ پس پردہ چلا گیا۔ ان متاثرین میں سے ایک نے جو خود بھی کھوکھر برادری سے تعلق رکھتا ہے، بتایا کہ ’’جب 1977ء میں جوہر ٹائون میں نیاز بیگ اسکیم منظور ہوئی تو تقریباً دو برس بعد میں نے بھی قریباً دو کینال اراضی خریدی، کیونکہ اس وقت زمین سستی تھی۔ بعد ازاں 1994ء میں شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال تعمیر ہوکر چل پڑا تو زمینوں کی قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنی شروع ہو گئیں۔ اس دوران 2005ء میں ملک شفیع اور ملک افضل نے میری اراضی پر قبضہ کرلیا‘‘۔ متاثرہ فرد چونکہ نہ صرف کھوکھر برادری سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اس کی کھوکھر برادران سے دور کی عزیز داری بھی ہے، لہٰذا فی الحال اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر اس نے مزید بتایا کہ ’’قریباً آٹھ برس پہلے میں نے خاموشی سے اس قبضے کے خلاف وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو درخواست بھی دی تھی، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ یہ درخواست میں نے اپنے ایک واقف کار کے ذریعے پہنچائی تھی۔ کیونکہ تھانے میں درخواست دینے پر متاثرین میں سے کوئی آمادہ نہیں تھا۔ سب کھوکھر برادران کے اثر و رسوخ سے ڈرتے تھے‘‘۔ ایک اور متاثرہ فرد کے بقول اس نے بھی قریباً 32 مرلے کے دو پلاٹس خریدے تھے اور ان پر بھی کھوکھر برادران کا قبضہ ہے۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ اب اس کی اراضی بھی کھوکھر برادران کے تعمیر شدہ محل کا حصہ بن چکی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جوہر ٹائون اور اس کے گرد و نواح میں مختلف مقامات کی اراضی پر کئے جانے والے قبضے تو اپنی جگہ ہیں، کھوکھر برادران نے 60 کینال (واضح رہے کہ ایک کینال میں 20 مرلے ہوتے ہیں) سے زائد اراضی پر ’’کھوکھر پیلس‘‘ کے نام سے اپنا جو عالیشان گھر بنایا، اس میں بھی قبضہ شدہ متعدد پلاٹس شامل ہیں۔ جنہیں یکجا کر کے ایک کر لیا گیا تھا۔ اس دو منزلہ محل کا نصف سے زائد حصہ اوپن رکھا گیا ہے اور اس کی طویل دیواریں کسی قلعے کا گمان پیدا کرتی ہیں۔ ذرائع کے بقول 60 کینال سے زائد اراضی پر واقع ’’کھوکھر پیلس‘‘ میں درجن بھر سے زائد لوگوں کے پلاٹس موجود ہیں، جس میں مقدمہ درج کرانے والے اوورسیز پاکستانی محمد علی ظفر کی 34 مرلہ زمین بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس کا تعلق اسی جعل سازی سے تھا، جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور بعد میں Consolidation کرا لی۔ عدالت نے افضل کھوکھر کی زمینوں کو یکجا کرنے والے کنسلیڈیشن کلیکٹر، تحصیلدار اور پٹواری کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
لاہور میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے اٹھارہ بیس برس سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ٹکٹوں پر مسلسل منتخب ہونے والے کھوکھر برادران چونکہ شریف برادران سے خاصے قریب ہیں، اس لئے اس کیس کے آگے بڑھنے سے شریف فیملی کے خلاف نیا پینڈورا بکس کھل سکتا ہے، جنہیں پہلے ہی مختلف مقدمات اور انکوائریوں کا سامنا ہے۔
جوہر ٹائون سے ملحق سمسانی کھوئی پنڈ میں چند مرلے کے مکان میں رہنے والے کھوکھر برادران نے کس ہوشیاری سے شریف برادران کا قرب حاصل کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے، یہ داستان قریباً دو دہائیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ موجوہ جوہر ٹائون اور اس سے ملحقہ قریباً درجن کے قریب دیہات کھوکھر برادری کا مسکن ہیں۔ بالخصوص قومی اسمبلی کے حلقہ 135 کا بیشتر حصہ کھوکھر برادری کی اکثریت والے دیہات اور جوہر ٹائون پر مشتمل ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کو شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال بنانے کے لئے جوہر ٹائون کی بڑی اراضی اسی لئے دی تھی کہ اس علاقے کی طرف اندرون شہر کے لوگ ادھر کا کم ہی رخ کیا کرتے تھے اور اراضی کی قیمت بہت کم تھی۔ تاہم شوکت خانم اسپتال بننے کے بعد سے وہاں کی اراضی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور آج وہاں کی زمین ڈی ایچ اے سے بھی مہنگی قرار دی جاتی ہے۔ کھوکھر برادران کا ’’ کھوکھر پیلس‘‘ بھی شوکت خانم اسپتال کے نزدیک واقع ہے۔
ملک شفیع نمبردار کی سربراہی میں جوہر ٹاون سمسانی کی کھوکھر فیملی نے 90ء کی دہائی کے آخر میں سیاست میں قدم رکھا۔ تاہم انہیں کامیابی 2002ء کے عام انتخابات میں اس وقت ملی جب نون لیگ کے ٹکٹ پر ملک افضل کھوکھر نے پنجاب اسمبلی کی نشست جیتی۔ اس وقت سے آج تک کھوکھر برادران قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حصہ بنتے رہے۔ آج کھوکھر برادران کی دوسری نسل میدان سیاست میں ہے۔
مشرف دور میں پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے ملک افضل کھوکھر نے 2008ء کے جنرل الیکشن میں بھی نون لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک کرامت کھوکھر کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل 2002ء کے پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں ملک کرامت نے مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے امیدوار کی حیثیت سے ملک افضل سے شکست کھائی تھی۔ ملک افضل کھوکھر نے 2013ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کے امیدوار کے طور پر ایک بار پھر ملک کرامت کو قومی اسمبلی کی نشست پر شکست دی، جو اس بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا تھا۔ اسی طرح 25 جولائی 2018ء کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کا امیدوار ملک اسد بھی ملک افضل کھوکھر کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ یوں افضل کھوکھر نے تیسری بار قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی اور اب وہ ایوان زیریں کا حصہ ہے۔ 25 جولائی کے الیکشن میں ملک افضل کھوکھر نے این اے 136 سے الیکشن لڑا۔ جبکہ ملحقہ حلقے این اے 135 سے اپنے بھائی سیف الملوک کو کھڑا کیا تھا جو پی ٹی آئی کے امیدوار ملک کرامت کھوکھر سے ہار گیا۔ دوسری جانب سیف الملوک کھوکھر نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 161 سے نون لیگ کے ٹکٹ پر اپنے بیٹے فیصل ایوب کو اتارا تھا۔ جبکہ کھوکھر برادران کے سربراہ ملک شفیع کھوکھر نے اپنے بیٹے عرفان شفیع کھوکھر کو صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 173 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑایا۔ عرفان شفیع کھوکھر کو نون لیگ کی سپورٹ حاصل تھی۔ تاہم ان دونوں نشستوں پر کھوکھر برادران کے بیٹے اپنی ہی کھوکھر برادری لیکن تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدواروں ندیم عباس کھوکھر عرف ندیم بارا اور سرفراز حسین کھوکھر سے شکست کھا گئے۔
ذرائع کے مطابق شریف برادران سے قربت کے سبب ہی گزشتہ عام انتخابات میں کھوکھر فیملی کے چار ارکان کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ملے۔ جس میں باپ، بیٹے اور بھتیجے شامل تھے۔ ذرائع کے بقول کھوکھر برادران کے خلاف قبضے کی انکوائری سے متعلق اینٹی کرپشن کے پاس کافی شواہد موجود ہیں۔ ان میں نصف درجن سے زائد بیوائوں کی درخواستیں بھی شامل ہیں۔ افضل کھوکھر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ان کے بڑے بھائی سیف الملوک کھوکھر کو پہلے ہی نیب میں چند انکوائریوں کا سامنا ہے۔ قریباً تین برس پہلے شادی کی ایک تقریب میں مخالف پارٹی نے فائرنگ کر کے ملک شفیع کھوکھر کے بڑے بیٹے عمران شفیع کھوکھر کو قتل کر دیا تھا۔ وہ بھی سیاست میں سرگرم تھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More