ڈہرکی میں محنت کش پر کتے چھوڑنے کی تحقیقات
ڈہرکی (نمائندہ امت)ڈہرکی میں 3 روز قبل پولیس اے ایس آئی کی طرف محنت کش کے پیچھے کتے چھوڑنے پر بیٹا دلبرداشتہ ہوکر صدمے میں ہلاک ہونے والا معا ملے کا ایس پی گھوٹکی نے نوٹس لیا لے لیا۔ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ڈی ایس پی ہیڈ کواٹر انکوائری آفیسر نامزد کردیا ، جبکہ اے ایس آئی اور متاثر فیض محمد منگی کی والدہ اور بھائی کے بیان قلمبند کرلئے گئے ہیں ۔ڈی ایس پی نے فریقین کو 28دسمبر کو پھرطلب کرلیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق ڈہرکی کے نواحی گاؤں سید نور حسن شاہ میں 3 روز قبل پولیس اے ایس آئی رحیم بخش منگی کی طرف سے محنت کش فیض محمد منگی کے پیچھے کتے چھوڑنے پر 12سالہ معذور بیٹا زاہد حسین منگی خوفزدہ ہوکر صدمے میں ہلاک ہونے والے معاملے کی ایس پی گھوٹکی ڈاکٹر اسد عجاز ملہی نے نوٹس لے لیا ہے۔ ڈی ایس پی ہیڈ کواٹر حافظ عبدالقادر چاچڑ کو انکوائری آفیسر نامزد کیا ہے، ڈی ایس پی ہیڈ کواٹر نے دونوں فریقین کو گزشتہ روز طلب کیا تھا، متاثرہ فیض محمد منگی بیٹے کی رسم قل کی وجہ سے پیش نہ ہوسکے اس کی جگہ والدہ مائی مختیاران اور بھائی کاشف منگی پیش ہوئے اور بیان قلمبند کئے، متاثر فیض محمد منگی پیش نہ ہونے پر ڈی ایس پی نے دونوں فریقین کو دوبارہ 28 دسمبر کو طلب کیا ہے۔ ڈی ایس پی کی طرف سے متاثرہ خاندان کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دوسری طرف رابطہ کرنے پر فیض منگی کی والدہ مائی مختیاراں نے بتایا کہ انکوائر ی آفیسر کو تمام ثبو ت پیش کئے ہیں۔ اے ایس آئی رحیم بخش منگی کے خلاف پہلے بھی انکوائری ہو چکی ہیں جن میں اے ایس آئی رحیم بخش منگی جھوٹا قرار پایا ہے۔ انکوائری ٹیم کے سامنے رحیم منگی جھوٹ بولتا ہے ۔ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں لیکن انکوائریاں ختم ہونے کے بعد علاقے کی مختلف تھانوں اور پولیس چوکیوں سے پولیس بھیج کر بلاجواز تنگ کرنا رحیم بخش منگی کا روز کا معمول بن چکا ہے، میری ساری اولاد در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے، کبھی ہمیں بااثر وڈیرہ تو کبھی جرگائی وڈیرہ بنا دیتا ہے یہ سب جھوٹے الزام عائد کرتا ہے، پولیس کی وردی کو ڈھال بنا رکھی ہے اور پولیس کے ذریعے ہمیں خوامخواہ تنگ کرتا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں موجودہ ایس پی گھوٹکی اسد اعجاز سے انصاف کی امید ہے اوراگر اس بار بھی میرے خاندان کے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو پورے گھرانے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائیں گے پھر چاہئے اس بھوک ہڑتال میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔