قسط نمبر: 23
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
آپ کو شاید معلوم ہو کہ رفیق شنواری مرحوم کو پشتو میں قوالی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ اس پر انہیں جنرل ضیاء الحق شہیدؒ کے دور میں صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ان کی ایک قوالی، جو انہوں نے پہلے پہل ریڈیو پر گائی تھی، اور ریڈیو تک ہی محدود رہی، مجھے بہت پسند تھی۔ میں نے اس کا ذکر اپنے سوال کے حوالے سے چھیڑا، تو فرمایا کہ: ’’میرے گھر کے قریب لکڑیوںکا ایک ٹال ہوتا تھا۔ ایک غریب مزدور اس میں مستقل لکڑیاں کاٹنے کا کام کرتا تھا۔ اس کا نام مصری جان تھا۔ پشاور کی سخت گرمی میں وہ لکڑیاں کاٹ کاٹ کر اکثر بے حال ہو جاتا تھا۔ اسی ٹال میں ایک چوپال یا جھونپڑی سی بنی تھی۔ اس میں وہ کچھ دیر کے لئے سستاتا تھا۔ رات کو وہ اسی جھونپڑی میں سوتا تھا۔ مگر اس سخت مشقت میں وہ اکثر لکڑیاں کاٹتا ہوا گنگنا تا بھی تھا۔ ایک دن میں اس کے قریب گزرا تو اس کی آواز مجھے بہت اچھی لگی۔ میری اس سے دعا سلام ہوگئی۔ معلوم ہوا وہ شاعر ہے اور اللہ کے رسولؐ کے حق میں بہت خوبصورت نعتیہ شاعری کرتا ہے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ تھا۔ مگر مجھے اس کے کلام میں بہت کشش و تاثیر محسوس ہوئی۔ یہ قوالی جو تم پسند کرتے ہو، یہ اسی کا کلام ہے۔ میں نے ریڈیو کے لئے خود گایا اور کمپوز کیا تھا‘‘۔
میں نے رفیق شنواری سے درخواست کی کہ وہ مجھے وہ قوالی، موسیقی کے بغیر گنگنا کر سنادیں۔
اس سے پہلے اسی محفل میں یہ مولائے فن، جس کے کمالات کا کیا ذکر کروں، افغانستان کے شاہ شجاع کی ایک مشہور فارسی غزل سنا کر مجھے بے حال کر چکا تھا:
بقامد خونِ عالم ریختی پوشیدہ پوشیدہقیامت دامنت رابو سزد ترسیدہ ترسیدہکجا بینی زِ شب باقی کہ مے خوردی کہ مے آئیقدم لغزیدہ لغزیدہ نگاہ دزدیدہ دزدیدہیہ فارسی غزل سنتے ہی میرے دل پر نقش ہوگئی تھی۔
اب مصری جان کے اس عارفانہ کلام کے لئے ان کی پر تاثیر آواز ابھی ان کے گلے سے نکلی نہیں تھی، میں نے اپنا سینہ اپنے دونوں بازوؤں میں مضبوطی سے پکڑا… وہ سینہ جس میں میرا ایک بے قرار اور پاگل قسم کا دل ہے… ایسے موقعوں پر ’’باہر‘‘ نکلنے پر بضد ہوتا ہے۔
خوبانو کنبی سلطان زما جانان دےخوبانو کنبی سلطان زما جانان دےاللہ پہ خپلہ وائی کہ دا مخ نہ وے پیدادا خپلہ خدائی بہ بنکارہ کری نہ وہ ماقسم دے لہ دی مخہ می ابادہ کرہ دنیادا خومرہ عالیشان زما جانان دےخوبانو کنبی سلطان زما جانان دے’’سارے معشوق کا سلطان میرا معشوق/ جانان ہے۔ اللہ نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اگر میں اسے پیدا نہ کرتا تو اس دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا… میرا معشوق کتنا عالی شان ہے‘‘۔
میرے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ سوچ میں پڑ گیا کہ ہم دن رات اس خدا کی نعمتوں میں کھیلتے ہیں۔ جب ذرا سا کانٹا چھبتا ہے تو نعوذ باللہ، گالیاں بکنے پر اتر آتے ہیں۔ لیکن…
مصری جان!
سخت گرمی… پشاور کی گرمی میں لکڑیاں کاٹنے والا اس حالت میں بھی گنگناتا ہے… تو اپنے محبوب کی خاطر، وہ محبوب جو خود خدا کا محبوب ہے…۔
قیامت کے روز یہی مصری جان بھی خدا کے حضور کھڑا ہوگا… اور اس خدا کی نعمتوں میں کھیلنے والا یہ غافل اور نمک حرام بھی… دونوں جنت کے امیدوار ہوں گے…!
کتنا عالی شان ہے مصری جان کا محبوب…! کتنا عالی شان ہے خود مصری جان…!
کتنے پست و افتادہ تر ہیں، خاک کی آغوش میں ہم زمینی مخلوق، جو نعمتوں اور سہولتوں کے انبار میں بھی اس عالی شان محبوب کے لیے کوئی تڑپ دل میں نہیں رکھتے۔
مجھے اس بات کا جواب مل گیا تھا کہ…، کہ درد سے نکلی صدا جب صاحبِ فن کی انگلیوں میں خم وپیچ کھانے کے مراحل سے گزرتی ہے تو دلوں کو سینوں سے باہر نکالتی ہے یا پھر آنسوؤں کو…۔
غنا و قوالی سننے میں جن بزرگوں کو سب سے زیادہ مطعون کیا جاتا ہے، وہ چشتیہ سلسلے کے بزرگ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان میں بھی خاص کر خواجہ نظام الدین اولیائؒ کی ذات گرامی اس حوالے سے زیادہ تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی محفل میں سب سے زیادہ بزرگ ہستی اور حضرت کے بطریق روحانیت قریب تر شاگرد نصیرالدین محمد روشن چراغ دہلویؒ تھے۔ امیر خسرو جب حضرت خواجہ کے حضور میں عارفانہ کلام پیش کرتے تو روشن چراغ اپنے مرشد کے کپڑے لے کر شہر سے باہر پانی کی ندی کے کنارے انہیں دھونے کے لیے لے جاتے اور اس محفل میں شرکت سے گریز فرماتے۔ کسی نے اُن سے پوچھا کہ آپ اپنے مرشد کے مسلک پر کیوں نہیں چلتے تو صاف بتایا کہ اصل مرشد اللہ کے رسولؐ کی ذات اقدس ہے۔ وہاں یہ چیز ثابت نہیں، تو یہان کیوں سنوں؟ اکثر کہا کرتے تھے کہ امیر خسرو نے ہمارے مرشد کو ’’خراب‘‘ کیا ہے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت نظامؒ نے اپنی وفات سے پہلے اسی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور جب یہ خانقاہ کے مکمل متولی ہوئے، تو پہلے ہی دن امیر خسرو کے مزامیر اٹھا کر سب باہر پھینک دیں اور حضرت امیر پر محفل میں آنے پر پابندی لگائی۔ حضرت امیر تو تھوڑے عرصے تک حضرت نظامؒ کے بعد حیات رہے، مگر نصیرالدین محمد روشن چراغ دہلویؒ چالیس یا پنتالیس سال تک پورے ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کے واحد مانے ہونے بزرگ اور حضرت نظامؒ کے اصل جانشین تسلیم کیے گئے۔ ان کے پورے دور میں درگاہ کے اندر، یا سلسلے کے بزرگوں کی دوسری محافل میں ایک جگہ بھی محفل سماع منعقد نہیں ہوسکا۔
اس سے زیادہ دلچسپ حقیقت یہ سن لیجیے کہ خود حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے ہاتھوں تصنیف شدہ کتابچہ ’’ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیائ‘‘ کے نام سے مکتبہ دہلی کا چھاپ شدہ دستیاب تھا، جو حضرت خواجہؒ کے دربار کے باہر بازار سے عام حاصل کیا جاسکتا تھا۔ اس میں یہ تحریر موجود تھی، کہ کسی نے حضرت سے قوالی یا محفل سماع کے جواز کے بارے میں پوچھا تھا… تو حضرت کاجواب تھا:
پانچ شرائط کے ساتھ قوالی یا محفل سماع جائز ہے۔
1۔ گانے والے عارف ہوں
2۔ سننے والے عارف ہوں
3۔ عورت یا نابالغ بچہ محفل میں نہ ہو
4۔ کلام شریعت کے مطابق ہو
5۔ مزامیر یعنی آلات موسیقی نہ ہوں
اب آپ بتائیں کہ خود ان دعوؤں میں کتنی صداقت ہو سکتی ہے کہ ان بزرگوں کا تو گویا بس کام ہی دن رات سرود سننا تھا۔ اور اگر ان کے ہاں محفل سماع کا انعقاد کسی خاص وقت و مقام پر رہا بھی ہو تو وہ کس قسم کے آداب کی پابند محفل ہوتی ہوگی۔ یہ بات تو قطعی طور پر ہوگئی کہ آج کی جو موسیقی یا قوالی ہے، اس کی اس شکل میں ان بزرگوں کے ہاں نام و نشان بھی نہیں تھا۔
چنانچہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں شادی بیاہ کے خاص موقعوں پر سیدھے سادے انداز میں وقتی خوشی منانے کی خاطر جو سرود بجتا تھا اور ان خاص موقعوں پر اس موسیقی پر اہل دین کی طرف سے سکوت اختیار کیا جاتا تھا، اسے جواز بنانا یا صوفیاء کے ہاں عارفانہ کلام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اس سے آج کی موسیقی کے لیے راستہ نکالنا ایک ایسی جرأت ہے، جو کسی خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ جب بھی ہم صوفیا کی محفلوں میں سماع کی بات سنتے ہیں اور ہم انہیں یا تو آج کی اس موجودہ دور کی عریاں موسیقی پر قیاس کرتے ہیں، یا ہمارا خیال ہوتا ہے کہ وہ محفل سماع آج کی قوالی کا وہ شرمناک مظہر ہوگا، جسے ہم درگاہوں اور دوسری محفلوں میں سنتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ حقیقت ایسی نہیں۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ صوفیاء کی محافل میں جس موسیقی یا عارفانہ کلام کا ذکر ہم کو ملتا ہے، اس کا دور تک کوئی تعلق اس موجودہ بے ہودہ موسیقی سے نہیں۔ ان محافل میں یا عارفانہ کلام مزامیر (آلات موسیقی) کے بغیر سنا جاتا تھا، یا اگر مزامیر ہوتے بھی تھے تو اپنی پرانی ابتدائی شکلوں میں، جنہیں کہیں شادی بیاہ اور خوشیوں کے موقعوں پر استعمال کیا جاتا تھا اور جسے اسلامی شریعت کے نقطۂ نظر سے کوئی معیوب شے نہیں سمجھا گیا۔ البتہ آپ حضرات، نظام الدین اولیائؒ کے دربار میں حضرت امیر خسرو کی طرف سے عارفانہ کلام میں مزامیر کے استعمال کی جو کہانی اوپر سن چکے ہیں، اور ہم نے بتایا کہ حضرت کے جانشین روشن چراغ دہلویؒ نے ان پر بھی پابندی لگائی۔ (جاری ہے)
Prev Post