محمد زبیر خان
سرگودھا کے ایک نام نہاد دربار میں بیس مریدوں کے قتل کا مقدمہ سست روی کا شکار ہونے سے لواحقین میں مایوسی پھیلنے لگی ہے۔ کیس میں پرائیویٹ شہادتیں مکمل ہو چکی ہیں، جبکہ پولیس اور دیگر سرکاری شہادتیں پیش ہونا باقی ہیں۔ سرگودھا ڈویژن میں وکلا کی ہڑتال کے سبب کیس کی دو ماہ سے سماعت ممکن نہیں ہو سکی۔ مقتولین کے لواحقین کے مطابق مرکزی ملزم اور دربار کا متولی عبدالوحید عدالت میں بیٹھ کر بھی تڑیاں لگاتا ہے کہ اس کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں۔ لواحقین راضی نامہ کرنے کیلئے تمام دباؤ مسترد کر چکے ہیں۔ مدعی پارٹیوں کے وکیل کی رائے ہے کہ وکلا کی ہڑتال ختم ہونے کے دو تین ماہ بعد کیس کا فیصلہ ممکن ہو سکے گا۔ جبکہ انصاف کی راہ تکتے ہوئے ایک مقتول کا بھائی بھی دنیا سے کوچ کر چکا ہے۔
خیال رہے کہ اپریل 2017ء میں ضلع سرگودھا کے مضافاتی علاقے چک نمبر 95 شمال میں ایک دربار ’’مستی سرکار چوہدری علی محمد قلندر‘‘ کے متولی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 20 افراد کو قتل کر دیا تھا، جو دربار کے مرید بتائے جاتے تھے۔ پولیس کے مطابق دربار کے متولی نے نشہ آور دوا دے کر تشدد کے ذریعے ان افراد کو قتل کیا۔ دربار کا متولی عبدالوحید ان لوگوں کو تین روز تک دربار میں طلب کر کے قتل کرتا رہا تھا، جس کو اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق عبدالوحید نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس نے مریدوں کو اس شک میں قتل کیا ہے کہ وہ اسے زہر دینے کی سازش کر رہے تھے۔
ملزم عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ مگر لواحقین کی بڑی تعداد تا حال فیصلہ نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہے۔ واقعے میں قتل ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان محمد اشفاق کے ماموں محمد اکرم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ… ’’ہم لوگ کیس کی طوالت سے بہت زیادہ پریشان ہو چکے ہیں۔ ابھی تو وکلا کی ہڑتالیں چل رہی ہیں، مگر اس سے پہلے بھی اکثر ہم تاریخ پر جاتے تو سماعت ممکن نہ ہو پاتی تھی۔ محمد اشفاق کا ایک بھائی زین العابدین جو اشفاق سے چھوٹا تھا، اس واقعے سے بہت زیادہ دل برداشتہ ہوا تھا اور اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا اور نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔ وہ ہر وقت اپنے بھائی ہی کو یاد کرتا رہتا تھا۔ اس سال اکتوبر میں اس کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ یہ ایک قیامت کے بعد دوسری قیامت تھی اور یہ دو ہی بھائی تھے۔ اب دنیا والے خود سوچ لیں کہ ان کے والدین اور ان کے خاندان کس قیامت سے دو چار ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی سطح پر ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں کہ کیس کی کسی طرح جلدی سماعت ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ ہم اعلیٰ احکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کیس کو جلد از جلد فیصلے کی سطح پر لانے کے انتظامات کریں‘‘۔
مختیار جس کا بھتیجا شاہد علیم واقعے میں قتل ہوا تھا، اس کا کہنا تھا کہ… ’’عجیب سی صورت حال ہے۔ کیس طوالت پر طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملزم عبدالوحید انتہائی با اثر ہے۔ وہ مختلف طریقوں سے کیس کو طوالت دے رہا ہے۔ کبھی ایک درخواست اور کبھی دوسری درخواست دے دیتا ہے۔ ہم اپنی مزدوریوں اور کام کے اوقات سے وقت نکال کر تاریخوں پر جاتے ہیں، مگر سماعتیں نہیں ہوتیں۔ ستم یہ ہے کہ ایک مرتبہ تو ملزم عبدالوحید نے عدالت میں ہمیں دیکھ کر کہا تھا کہ میرا کوئی کچھ نہیں کر سکتا، جس نے جو کرنا ہے کر لو، کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں‘‘۔ مختیار کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ساتھ وعدے کئے گئے تھے کہ کیس کو جلد انجام تک پہنچایا جائے گا، مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے اور ابھی بھی شہادتیں باقی ہیں‘‘۔
توقیر ناصر جس کا بھائی علیم گجر بھی واقعے میں قتل ہوا، اس کا کہنا تھا کہ… ’’ملزم ہر صورت میں کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ایک دو تاریخوں کے موقع پر تو اس کے حمایتی بھی ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا کہ اس کیس کا کچھ بھی نہیں ہونا ہے۔ آپ لوگ ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور حل نکالتے ہیں۔ مگر ہم لوگوں نے ان کو مکمل طور پر انکار کر دیا اور دو ٹوک کہا کہ صلح نہیں ہو سکتی۔ مگر مختلف حربوں سے ہم پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘‘۔
چار مدعی پارٹیوں کے وکیل افضل چیمیہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کیس میں تمام پرائیوٹ شہادتیں مکمل ہو چکی ہیں اور اب سرکاری اور پولیس کی شہادتیں رہتی ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سرگودھا ڈویژن میں اس وقت ہائی کورٹ بنچ کے قیام کے مطالبے کیلئے وکلا کی ہڑتال چل رہی ہے، جس کی وجہ سے دو ماہ سے کیس کی سماعت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اگر وکلا کی ہڑتال ختم ہو جائے تو توقع ہے کہ اس کے بعد دو سے تین ماہ میں کیس کا فیصلہ ہونا ممکن ہو سکے گا۔