بھٹو کارڈ مؤثر طریقے سے کھیلنے کیلئے صنم کو لایا گیا

0

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) متحرمہ بے نظیر کے گیارھویں یوم شہادت پر پارٹی رہنماؤں کی تقریروں نے سب کچھ کہہ دیا ہے۔ عیاں راچہ بیاں۔ ویسے بھی اس برسی کو پاور شو میں بدلنے کے لئے پارٹی کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ سندھ کے عوام محترمہ سے محبت رکھتے ہیں۔ جو ان دیکھے دھاگوں کی طرح ان کی روح کو باندھے رہتی ہے۔ اور ہر سال 27 دسمبر کو کھینچ کر گڑھی خدا بخش بلالیتی ہے۔ ویسے بھی مزاروں سے عقیدت اور الفت سندھ کے عوام کا خاصہ ہے۔ خیر۔ آمدم برسر مطلب۔ بات یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کی دو دھاری تلواریں شپا شپ چل رہی ہیں۔ اور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں کشتوں کے پشتے لگا رہی ہیں۔ نیب کی شمشیر خارا شگاف سے صرف وہ محفوظ ہیں۔ جو امام انقلاب کے شامیانے میں کھڑے ہیں۔ باقی کا اللہ حافظ ہے۔ عدالت کیا۔ قیادت کیا، ریاست کیا، حکومت کیا، سبھی توپیں داغ رہے ہیں۔ متاثرین پراگندہ۔ پریشان اور بلبلائے پھررہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ جس چشم کو دیکھا سو وہ پر نم نظر آئی۔ لگتا ہے عالم میں مکہ۔ کوئی دل صاف نہیں ہے۔ تلواریں اٹھتی ہیں، گرتی ہیں اور واپسی پر لہو کی دھارتھوکتی جاتی ہیں۔ یوں تیغ تیز کو نہ گئی اس گروہ پر۔ بجلی تڑپ کے گرتی ہے ،جس طرح کوہ پر۔ اس پر مستزاد وزیر اطلاعات اور ان کے ساتھیوں کی تیغ زباں کے پپنچے ہیں ،جوہر کہاں کہاں؟ جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں۔ دماغ تک جانے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ اس سب کے باوجود نواز لیگیوں کی صفوں میں ہراس ہے پر بھگڈر نہیں۔ شاید دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کا امتحان ابھی نہیں آیا۔ اس لئے سب جڑے ہوئے ہیں۔ معرکے کی ابتدا میں نواز شریف کا نعرہ تھا کہ سوکھ کر کانٹا ہوا ہوں پر انیس۔ آنکھ میں دشمن کی اب تک خار ہوں۔ تاہم بیٹی سمیت جیل کاٹنے کے بعد اب رزمیہ کی جگہ حزنیہ کلام نے لے لی ہے۔ اب ضبط کا دل کو یارا نہیں۔ یا یہ کہ ضعیفی میں بار گراں کھینچے ہیں۔ مزاج میں ٹھنڈک، لہجے میں غم، باتوں میں شکوہ اور آنکھوں میں فریاد چمکنے لگی ہے۔ شاید انہیں احساس ہوگیا ہے کہ جس تیزم تیزی کو زرہ بکتر بنا کر آئے تھے۔ اس میں سوراخ تھے۔ وہ گرم تھے۔ تب بھی پارٹی ٹھنڈی تھی۔ وہ ٹھنڈے ہوئے ہیں۔ تو بھی پارٹی نیم بستہ ہے۔ مسلم لیگ کبھی بھی اسٹریٹ پاور والی جماعت نہیں رہی۔ اس کے خمیر میں پہلے آئین اور دستور تھا۔ پھر خوشامد درآمد آئی۔ اور آخر میں فوجی آمروں کا کھلواڑ بنی۔ ستر برس کے سفر کو بس تین جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ وہ آیا، اس نے دیکھا اور پھر لیٹ گیا۔ خام بدم، پختہ شدم، سو ختم اس ماضی کے باعث اسے تین سو تیرہ والے معرکے سے متاثر کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ سودا بیچنے اور خریدنے والوں کی جماعت ہے۔ تیر اور تلوار چلانے والوں کی نہیں۔ رہ گئی پیپلزپارٹی۔ تو اس کے تیزاب کو الکلی جناب زرداری نے بنادیا۔ بے نظیر کے زمانے میں پارٹی کا یہ حال تھا کہ موئے آتش دیدہ تھا حلقہ سبھی زنجیر کا۔ ہر بندہ فدا کار تھا۔ جان دینے پر آمادہ تھا۔ مشرف نے گیارہ برس تک ٹل کا زور لگایا۔ پارٹی توڑ سکا نہ فارورڈ بلاک بنا سکا۔ مخدوم امین فہیم نے مشرف سے دوستی کے باوجود اپنے خاندان کی لاج رکھ لی۔ ہر طرح کی ترغیب کے باوجود پارٹی توڑنے پر آمادہ ہوئے نہ موڑنے پر۔ لیکن زرداری آئے تو پارٹی کے آشیانے میں شارٹ سرکٹ ہوگیا۔ پھر گھر کے چراغ نے گھر کے دئیے بجھا دیئے۔ تب یہ حال ہوگیا کہ جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا۔ ان کی دیکھا دیکھی وقت کے وزیراعظم کی اہلیہ نے لاہور کی شادیوں میں شرکت کے ریٹ مقرر کردیئے۔ پندرہ منٹ کے اتنے، آدھے گھنٹے کے اتنے، سادہ شرکت کے اتنے، شرکت کے ساتھ تحفہ دینے کے اتنے، تصاویر بنوانے کے اتنے اور جانے کتنے کے کتنے۔ اک جوش تھا کہ محو تماشائے جوش تھا۔ یہ جو فرشتوں کے لکھے پر آج پکڑے جارہے ہیں۔ یہ سو فیصد ناحق نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے بلبل کے کاروبار پر خند ہائے گل تھا۔ اب قہر ہائے خار ہے۔ جو فرشتے بڑھاوا دیتے تھے۔ وہی اب پکڑ رہے ہیں۔ پہلے چوری کی ترغیب تھی، اب سزا کی تعذیب ہے، پہلے آنکھیں پھیرلی جاتی تھیں، اب نکالی جارہی ہیں، پہلے اپنا مطلب نکالا جاتا تھا، اب کھایا پیا نکالا جارہا ہے۔ باغ بھی وہی ہے، باغبان بھی وہی۔ زمین بھی وہی ہے، آسمان بھی وہی۔ بس پرانوں کی جگہ نئے پودے لگا دیئے ہیں۔ یہ نئے بھی پرانے ہوں گے اور پھر اکھڑیں گے تو نئے لگیں گے۔ پنیری تیار ہے۔ بچھرا پلٹن کو چپ و راست سیکھنے پر لگا دیا گیا ہے۔ جب سیکھ لے گی تو اسے سکھانے والوں کی جگہ دے دی جائے گی۔ سیاسی صورت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی باون کا گز بنی ہوئی ہے۔ زرداری سیاست سے کنارہ کش ہونا نہیں چاہتے۔ ہوں بھی تو بلاول نہیں مانتے۔ سو پہلے ایک کی فراغت ضروری تھی ،اب دوسرے کے کاغذ بھی تیار ہورہے ہیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے زرداری نے اپنی سالی محترمہ صنم بھٹو کو پاکستان بلا لیا ہے۔ تاکہ آڑے وقت میں کام آئیں اور پارٹی کمان سنبھالنے میں بی بی کے بچوں کو مدد دیں۔ صنم بھٹو کو بلا کر آصف زرداری بھٹو کارڈ مؤثر طریقے سے کھیلنا چاہتے ہیں،زرداری صاحب کی پشت پر اگرچہ بیرونی طاقتوں کے نمائندوں کا پورا ہاتھ ہے۔ مگر حالات کی میکنیکس اس کے برعکس جارہی ہے۔ سو ان کی گرفتاری رضا کارانہ یا ملک بدری کا آپشن ابھی ختم نہیں ہوا۔ زرداری گرفتاری کے لئے تیار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا فائدہ ان کے ولی عہد کو ہوگا۔ لیکن ولی عہد بھی اگر نااہل قرار دے دیئے گئے تو اس فائدے کا کیا فائدہ؟ اس لئے جلد یا دیر انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ابھی جھک جائیں اور خود کو بچالیں۔ یا لڑ جائیں اور پارٹی کو مظلوم بنالیں۔ حریص لذت آزاد ہونے کا فائدہ اگر اگلی نسل کو ملے تو یار کا ہاسسستھ کھینچ پکڑ کر بھی اسے ستم پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More