ترکی سے خوفزدہ کردوں نے منبج بشار کے حوالے کردیا
بیروت/دمشق(امت نیوز)شام کی بشار الاسد فوج امریکی فوج کی اتحادی کرد تنظیم وائی پی جی کی اپیل پر تنازع شروع ہونے کے بعد پہلی بار منبج میں داخل ہو گئی ہے ۔ کرد تنظیم نے امریکہ کی جانب سے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد منبج پر ترک فوج کے حملے کے خدشات پر بشار فوج کے حوالے کیا جہاں اس کے اتحادی امریکہ نے ایک فوجی اڈا بھی بنا رکھا ہے ۔بشار فوج کا کہنا ہے کہ اس نے علاقے میں اپنا پرچم لہرا دیا ہے اور وہ علاقے میں تمام شامی شہریوں کا تحفظ کرے گی ۔شامی فوجیں منبج میں6سال بعد داخل ہوئی ہیں ۔ترکی اپنی سرحد کے قریبی علاقوں میں کرد عسکریت پسند تنظیم وائی پی جی ملیشیا کادشمن ہےاوراسے خوف ہے کہ اس کی وجہ سے ترک علیحدگی پسند کرد تنظیم پی کے کےبھی مضبوط ہو گی۔ترکی کا مؤقف ہے کہ وائی پی جی کےدہشت گرد بھی کردستان علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ ہیں جو1984 سے ترکی سے برسر پیکار ہے۔ اس تنظیم کو ترکی اور اس کے مغربی اتحادی دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بلیک لسٹ کر چکے ہیں۔جمعہ کو ہونے والی پیشرفت ترکی کے اعلان کے بعد سامنے آئی تھی جب ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا تھا کہ ان کا ملک داعش کی باقی ماندہ طاقت ختم کر سکتا ہے۔ عسکری ماہرین نے ترکی کے اس دعوے پر شک کا اظہار کیا ہے۔ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو کا کہنا تھا کہ ترک فوج جلد سے جلد دریائے فرات کا مشرقی حصہ عبور کر کے شام کے شمال تک پہنچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوغان نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ترکی بارہا امریکہ سے داعش کے خلاف لڑائی میں کرد تنظیم وائی پی جی کو تربیت و ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کے مطالبے کرتا رہا ہے ۔عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی اپنی شام کے ساتھ سرحد بند کر کےداعش دولت اسلامیہ کی پیش قدمی کو روک سکتا ہے۔ترکی کا اصل ہدف شام سے امریکی انخلا کے بعد وائی پی جی کو نشانہ بنانا ہے۔