عمران خان
کسٹم ہائوس کراچی میں محکمہ کسٹمز کے وی بوک سسٹم اور پرال سسٹم کے تحت پی ڈی اکائونٹس میں جمع ہونے والی بینک گارنٹیوں اور ادائیگیوں کی مد میں 60 ارب روپے بدعنوانی کے کیس میں ایف آئی اے نے تحقیقات کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر دبا دیا گیا۔ 2017ء میں رجسٹرڈ ہونے والی انکوائری پر تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا گیا اور اس انکوائری کی فائل گزشتہ ایک برس سے سرد خانے کی نظر کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول 2017ء کے اوائل میں اسلام آباد سے موصول ہونے والی تحریری درخواست پر ایف آئی اے کراچی زون کے اس وقت کے ڈائریکٹر امیر شیخ کی جانب سے ایف آئی اے کے کمرشل بینکنگ سرکل کو انکوائری سپرد کی گئی تھی جس کو انکوائری نمبر 29/2017 کے رجسٹریشن نمبر کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی مراد بالادی کو منتقل کیا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول اس انکوائری پر جب ابتدائی طور پر تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا تو کراچی کسٹمز ہائوس میں محکمہ کسٹمز کے وی بوک سسٹم اور پرال سسٹم کے علاوہ بینک کے پی ڈی اکائونٹس میں ہولناک کرپشن اور بدعنوانیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں تھیں جس کا ابتدائی تخمینہ 60 ارب کے قریب لگایا گیا اور اس کا دورانیہ گزشتہ 5 برسوں کا تھا، جس میں 327 جعلی کمپنیوں کو استعمال کرکے ان کے درآمدی سامان پر جعلی بینک گارنٹیاں رکھوا کر اربوں روپے کا سامان منگوایا جاتا رہا جس سے قومی خزانے کو بھاری مالیت کا نقصان پہنچایا گیا۔ مذکورہ تحقیقات میں کسٹمز حکام سے ریکارڈ طلب کرنے کیلئے ایف آئی اے کی جانب سے متعدد لیٹرز ارسال کئے گئے۔ تاہم اس پر محکمہ کسٹمز کی جانب سے نہ تو کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر کسٹمز حکام کی جانب سے ریکارڈ فراہمی پر ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔
ذرائع کے بقول کچھ ماہ قبل جب ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی مراد بالادی کا تبادلہ کیا گیا تو یہ اہم انکوائری ایک دوسرے افسر کو دے دی گئی جس کے بعد ایف آئی اے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں اور ڈی جی عملیش خان کی جگہ ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بشیر احمد میمن اور ڈائریکٹر سندھ زون میں امیر شیخ کی جگہ منیر احمد شیخ تعینات ہوئے جس کے بعد بتدریج اس انکوائری کو دبا دیا گیا اور اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس وقت یہ انکوائری ایف آئی اے میں زیر التوا دیگر کئی انکوائریوں کی فائلوں میں دبی ہوئی ہے تاہم اس اسکینڈل پر بھر پور تحقیقات کرکے سینکڑوں ٹیکس چوروں پر مشتمل نیٹ ورک کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔
ذرائع سے مزید معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ نیٹ ورک کے ذریعے کسٹمز کے اپریزمنٹ کے کلکٹرز کے نام پر بنوائی جانے والی ایک بینک گارنٹی کو کئی کئی کمپنیوں کا سامان کلیئر کروانے کیلئے استعمال کیا جا تا رہا۔ اس طرح سے سینکڑوں بینک گارنٹیوں، بینک کے چیکس اور پے آرڈرز پر ہزاروں کی تعداد میں کنسائنمنٹس کلیئر کرائے گئے۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ کمپنیوں کے نام پر منگوائے جانے والے سامان کو کلیئر کرانے والے کسٹم کلیئرنگ اینڈ فاورڈنگ ایجنٹ اس نیٹ ورک کے مرکزی کردار رہے، جو کسٹمز کے گارنٹی ڈپارٹمنٹ اور وی بوک ڈپارٹمنٹ کے علاوہ پرال ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ حکام سے ملی بھگت کرکے ریکارڈ میں رکھوائی گئی بینک گارنٹیوں کا اصل ریکارڈ حاصل کرلیا کرتے تھے اور ان بینک گارنٹیوں کو نئی کمپنیوں کی جانب سے منگوائے جانے والے سامان کو کلیئر کرانے کیلئے بطور شورٹی یہ گارنٹیاں اسکین کروا کر دیگر درآمدی دستاویزات کے ساتھ فائل کا حصہ بنایا جاتا تھا۔ اور اسے وی بوک آئی ڈیز میں داخل کر دیا جاتا تھا، تاہم کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے ایک کمپنی کے کنسائنمنٹ ان گارنٹیوں میں کلیئر کرانے کے بعد یہی اصل گارنٹیاں ریکارڈ سے دوبارہ حاصل کر لیتے تھے اور انہیں دیگر کمپنیوں کے کنسائنمنٹس کلیئر کروانے کے لئے استعمال کرلیتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی برس تک چلایا گیا اور اس فراڈ اور کرپشن کے ذریعے قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان پہنچا دیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق اس انکوائری میں کسٹمز کے اپریزنگ افسران سے لے کر ڈپٹی کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر اور ایڈیشنل کلکٹر کے علاوہ کلکٹرز سطح کے افسران نرغے میں آرہے تھے، یہی وجہ ہے کہ مافیا کو بچانے کیلئے اس نیٹ ورک کیخلاف ہونے والی تحقیقات کو ہی دبا دیا گیا اور یوں ٹیکس چوری، فراڈ اور کرپشن کا ایک سنگین اسکینڈل سامنے نہ آسکا۔
اس مافیا کے خلاف تحقیقات شروع ہونے کے بعد بھی محکمہ کسٹمز کے شورٹی اور گارنٹی ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ سے بینک گارنٹیاں چوری ہونے کی وارداتیں ہوتی رہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ایف آئی اے میں اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات دب چکی تھیں۔ ذرائع کے بقول رواں برس چند ماہ قبل بھی سامنے آنے والے ایک واقعہ میں پورٹ قاسم میں ایک امپورٹر کی جانب سے جمع کرائے جانے والے سیکورٹیز بانڈز غائب ہونے کا انکشاف اس وقت ہوا جب امپورٹر سے دوبارہ گارنٹی جمع کرانے کیلئے کہا گیا۔ امپورٹر نے مزید گارنٹی جمع کرانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے جمع کر ا چکا ہے جس پر تحقیقات کی گئیں تو ریکارڈ کے مطابق امپورٹر کی جانب سے بانڈ چیک جمع کرانے کی ثبوت مل گئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ پورٹ قاسم گارنٹی ڈپارٹمنٹ سے یہ چیک غائب ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اس سے پہلے بھی کسٹمز سے کروڑوں روپے کے سیکورٹیز بانڈ غائب ہو چکے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نیب نے بھی اس واقع کی تحقیقات شروع کیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود نیب سے اس معاملے میں تحقیق کیلئے رجوع کیا۔ ذرائع کے بقول اس اسکینڈل میں بھی جن 327 کمپنیوں کی فہرست ایف آئی اے کو موصول ہوئی ان کے ذریعے کرپٹ کسٹمز افسران اور ایف بی آر افسران کی ملی بھگت سے ان جعلی کمپنیوں کی درآمدات کروڑوں روپے کا ٹیکس بھی چوری کیا جاتا رہا۔ کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس کی یہ چوری کیلئے ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کا سہارا لیا گیا۔ مذکورہ ایس آر او 2009 میں مقامی ایکسپورٹ کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے جاری کیا گیا تھا، جس کے تحت مینو فیکچرنگ یونٹس کیلئے در آمد کئے جانے والے خام مال پر حکومت کی جانب سے خصوصی رعایت یعنی سبسڈی دی جاتی ہے۔ ایک جانب ایس آر او لگا کر سبسڈی لی جاتی رہی اور دوسری جانب کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھی جعلی گارنٹیاں رکھوائی جاتی رہیں۔ اس طرح سے قومی خزانے کو اس نیٹ ورک کے ذریعے دو طرفہ نقصان سے دوچار کیا جاتا رہا۔
ذرائع کے بقول جعلی درآمدی کمپنیوں کے حقیقت میں کوئی بھی مینو فیکچرنگ یونٹ نہیں تھے، بلکہ یہ کمپنیاں صرف کاغذوں میں موجود تھیں۔ جبکہ ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کے تحت رعایت پر مال اس وقت ہی کلیئر کیا جا سکتا ہے جب کسٹم افسران اس بات کی تصدیق کرلیں کہ جس کمپنی کے نام سامان منگوا کر کلیئر کرایا جا رہا ہے اس کا واقعی مینو فیکچرنگ پلانٹ موجود بھی یا نہیں۔ تاہم تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ان 400 جعلی کمپنیوں کے نام پر منگوایا گیا اربوں روپے کا سامان ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کے تحت کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ کراچی، کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ کراچی اور کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم سے کرپٹ کسٹمز افسران بھاری رشوت کے عوض بغیر تصدیق کلیئر کردیتے ہیں۔ یہی طریقہ لاہور کے ڈرائی پورٹ پر کرپٹ کسٹمز اہلکاروں نے اختیار کیا ہوا ہے جبکہ ان کمپنیوں کی وی بوک آئی ڈیز بھی آسانی سے بنا کر دے دی جاتی ہیں تاکہ انہیں ایکٹو مینو فیکچرنگ یونٹس کا اسٹیٹس مل سکے۔
٭٭٭٭٭