شاہنور خان نے مناسب جانا کہ اس وقت سرزنش و سرچنگ کے بجائے پیار اور چمکار سے کام لیا جائے۔ چنانچہ اس نے دھیرے دھیرے کرکے منیر خان سے اس کی پوری کہانی معلوم کرلی۔ اس پر جو گزری اس میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ منیر خان کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا کہ ٹھگ لوگ دوبارہ کوشش کرسکتے ہیں اور ایسے وقت میں مرزا صاحب کے ساتھ میرا نہ ہونا بڑے رنج اور شرم کی بات ہوگی۔ سامنے جانا تو فی الحال ممکن نہ تھا، لیکن اس نے یہ کوشش رکھی کہ پاپیادہ ہونے کے باوجود وہ مرزا تراب علی کی راہ پر اس طرح چلے کہ ان سے چند ہی ساعت پیچھے رہے اور اگر کہیں وہ مرزا صاحب کے لئے کوئی خطرہ یا خوف محسوس کرے، یا اسے کسی بات پر کوئی شک پیدا ہو، تو وہ جلد از جلد مرزا صاحب کے قافلے تک پہنچ جائے۔ دوسری بات یہ تھی کہ برطرفی کے باوجود منیر خان کے دل میں موہوم سی امید تھی کہ شاید اسے آئندہ جلد ہی معافی مل جائے۔ لہٰذا اس نے بھاری قدموں لیکن ممکن تیز رفتاری کے ساتھ میرزا صاحب کا تعاقب شروع کر دیا۔ وہ یہ تو نہ کہہ سکا کہ وہ مرزا صاحب کے کتنے پیچھے تھا، لیکن قائم گنج کا سواد اسے دکھائی دینے لگا تھا جب اس نے دل میں سخت بیچینی اور دہشت محسوس کی، گویا اس کے پیچھے کوئی چل رہا ہو۔ اس نے بار بار چوکنا ہوکر چاروں طرف دیکھا، راہ سنسان پڑی تھی اور سورج زوال میں تھا۔ سائے ہر طرف لمبے ہو رہے تھے۔ اس نے تیز تیز قدم مارنا شروع کیا کہ غروب آفتاب کے پہلے پہلے قائم گنج پہنچ جائے۔
قائم گنج در حقیقت بہت دور نہ تھا اور وہ سورج ڈوبنے کے کچھ بعد وہاں پہنچ گیا۔ کہیں آرام کی جگہ ڈھونڈنے کے بجائے اس نے مرزا صاحب کے قافلے اور شاہ نور خان کے قافلے کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ اس کا دل خوف اور رنج سے خون ہوگیا جب اسے مرزا صاحب کی کوئی بھی خبر، ذرا بھی سن گن نہ ملی، نہ شاہ نور خان کے بارے میں کسی نے کچھ سنا تھا کہ وہ فرخ آباد بھی پہنچے کہ نہیں۔ خیر، شاہ نور خان کے بارے میں ابھی پریشانی کا سبب نہ تھا، لیکن مرزا صاحب…؟ انہیں تو یہاں سے گزر چکنا، یا سچ پوچھو تو یہاں موجود ہی ہونا چاہئے تھا۔
رات ایک سرائے میں گزار کر منیر خان ہمت کرکے واپس بلہور کی سڑک پر چلا اور سہ پہر کے بعد وہاں سے بے نیل مرام لوٹتے ہوئے اس نے قائم گنج سے کچھ کوس پہلے پھر کل والی دہشت اور بے چینی محسوس کی۔ پہلے تو اس نے چاہا کہ ٹھہر کر چھان بین کروں کہ یہاں کیا ہے، یا کیا ہوا ہے، لیکن اس کی ہمت پھر جواب دے گئی۔ اس نے واپسی کا سفر جاری رکھا، لیکن رفتار بار ذرا دھیمی رکھی، کہ شاید کوئی سراغ دکھائی پڑ جائے۔ وہ کوئی آدھ کوس گیا ہوگا کہ دور میدان میں اسے کچھ سائے سے لہراتے نظر آئے۔ گھبراہٹ کے باعث اس کے پاؤں لرزنے لگے۔ اس نے تیز بھاگنا چاہا، لیکن اس سے نہ بھاگا جاتا تھا اور نہ ٹھہرا جاتا تھا۔ جی کڑا کرکے اس نے فیصلہ کیا کہ جانور ہوں گے، نہیں تو بھٹکے ہوئے مسافر ہوں گے۔ بھوت پریت تو مذہب اسلام میں ہیں نہیں، لیکن کیا معلوم جنات ہوں، بد روحیں ہوں؟ اوبڑ کھابڑ سناٹے میدان میں چور ڈاکو تو ہو نہیں سکتے۔ اس نے کئی بار آیت الکرسی پڑھی اور دل ہی دل میں ’’یا غوث پاک‘‘ کہتے وہیں ٹھہر کر ان سایوں کو کچھ اور نزدیک آنے دیا۔
اللہ رحم کرے، یہ تو مرزا صاحب کے جانور ہیں، اس نے دل میں کہا۔ دو گھوڑے تھے اور ایک خچر۔ تینوں کے بدن پر جگہ جگہ خراشیں تھیں، جیسے وہ سخت کانٹے دار جھاڑیوں میں الجھ کر بمشکل نکل پائے ہوں، یا… شاید درندوں نے ان پر حملہ کیا ہو۔ منیر خان کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ تیندوا ہوسکتا تھا یا شیر۔ لیکن شیر تو ادھر ہوتے نہیں شاید، اور چیتے کے تو کتوں جیسے پنجے ہوتے ہیں وہ ناخون سے حملہ نہیں کرتا۔ تیندوا تو نہایت ہی چالاک اور کمینہ خصلت جانور ہے۔ وہ تو گھنٹوں گھات لگائے چپ چاپ پڑا رہ سکتا ہے، یا کسی گھنے پیڑ کی ڈالی پر چھپا رات پوری پوری گزار سکتا ہے کہ شکار پیڑ کے نیچے سے گزرے تو میں اوپر سے کود کر اس کی کمر توڑ دوں…۔ لیکن خیر ابھی تو روشنی تھی، ابھی اتنا خطرہ نہ تھا۔ جانور ابھی کئی ہاتھ فاصلے پر تھے۔ نزدیک آجائیں تو میں انہیں پکڑنے کی کوشش کروں۔ پر یہ جانور یہاں اور اس طرح کیسے؟ اگر مرزا صاحب کے قافلے پر جنگلی جانوروں نے حملہ کیا ہوتا تو بھلا کتنے جانور رہے ہوں گے؟ مرزا صاحب کے ساتھ تو برچھیت بھی تھے اور دگاڑے والے بھی تھے۔ کچھ تو خون خرابا ہوتا۔ کچھ تو نشان کہیں ہوتے یا کہیں کچھ تو خبر اڑی ہوتی۔ یہ تو ٹھگوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے۔ ظالموں نے بے گناہ مسافروں کو ٹھکانے لگا کر ان کا مال لوٹ لیا ہوگا اور جانور کو تل چھوڑ دیئے ہوں گے۔
جانور اب نزدیک آگئے تھے۔ منیر خان نے پہچانا کہ ایک ان میں مرزا کی خاص سواری کا گھوڑا تھا، دوسرا سونپور میں خریدا تھا۔ خچر بھی پرانا لیکن اڑیل اور مشکل سے حکم ماننے والا جانور تھا۔ منیر خان بڑھا کہ تینوں کو اکٹھا سمیٹ لے، لیکن نیا گھوڑا بدک گیا اور اس کے ساتھ بوڑھا خچر بھی بھڑک کر ایک طرف کو نکل بھاگا۔ مرزا صاحب کے گھوڑے نے البتہ منیر خان کو پہچانا اور خود اس کے پاس آکر اس کی بغل میں منہ ڈال دیا۔ منیر خان نے اسے چمکارا، اپنے تھیلے سے گڑ کی ڈلی نکال کر اسے کھلائی اور اس سے بات کرنے لگا، گویا وہ انسان کی بولی سمجھتا ہو اور جواب بھی دے سکتا ہو۔ گھوڑے کی حالت کا بغور معائنہ کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے آوارہ پھرتے کم سے کم دو دن ہوگئے ہیں۔ اللہ جانے اصل بات کیا تھی، لیکن اگر یہ ٹھگوں کی واردات نہیں تھی تو جناتی کارخانہ معلوم ہوتا تھا۔
وہ گھوڑے کو ساتھ لئے ہوئے قائم گنج آیا، لیکن اب اس کے دل میں یہ ڈر گھر کرنے لگا کہ اگر مرزا صاحب کا قافلہ ٹھگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے تو اس گھوڑے کا میرے پاس سے برآمد ہونا مجھے اور بھی مشکوک بنادے گا۔ لہٰذا جب تک کوئی بات پکی نہیں معلوم ہوجاتی، گھوڑے کو چھپا دینا اور خود کہیں اور چھپ رہنا بہتر ہے۔ یہ سوچ کر اس نے گھوڑا ایک مقامی اصطبل میں کچھ رقم ادا کرکے رکھوادیا اور کہا یہ کہ میرے مالک کا گھوڑا ہے، اچانک بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ اب میں اسے پکڑ لایا ہوں۔ میرے مالک شکار پر ہیں، ایک دو دن میں آجاویں گے، تب تک آپ گھوڑے کی حفاظت اور دیکھ بھال کریں۔ خود منیر خان نے ایل کوٹھے پر پناہ لی۔ بازاری عورت سے اس کی کچھ آشنائی پہلے کی تھی۔
شاہ نور خان نے یہ پورا اظہار سیدیوں کی موجودگی میں سنا تھا اور اب ان سے مشورہ کرکے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ منیر خان جھوٹ نہیں بول رہا تھا، بالخصوص جب کہ اس نے گھوڑا بھی برآمد کرادیا تھا۔
’’اگر حضور صاحب کو ٹھگوں نے قتل کیا ہے، اور اسی علاقے میں گاڑا ہے، تو آپ جان لیں کہ دو تین دن میں اللہ چاہے ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں گے‘‘۔ سیدی منعم اور سیدی اکرام نے کہا۔
’’پر سنا ہے ٹھگان اپنے مقتول کو اس طرح ٹھکانے لگاتے ہیں کہ زمین پر کوئی پتہ نشان ہی نہیں رہتا‘‘۔ شاہ نور خان نے کہا۔
’’سو تو ہے جناب جی۔ پر ہمن بھی اپنے کام میں پکے ہیں۔ آپ دیکھئے گا پتہ کیسے نہ لگے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post