امت رپورٹ
مبارک ہو۔ نیا پاکستان بننے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس مبارک کام کی ابتدا آزاد امیدواروں کے ناریل پھوڑنے سے ہوا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہندوستان میں نئی دلہن نئے گھر آتی ہے تو چوکھٹ پر کچے ناریل پھوڑے جاتے ہیں۔ تاکہ قدم مبارک ہو۔ اور یہ کام لڑکے کے گھر والوں میں سے کوئی کرتا ہے۔ اب اقتدار کی دلہن کو خاکی بینڈ باجے نے بنی گالہ کے گیٹ تک تو پہنچا دیا۔ لیکن پھوڑنے کے لیے ناریل نہیں دیئے۔ سو یہ کام جہانگیر ترین کر رہے ہیں۔ انہوں نے ملک بھر سے آزاد ناریل جمع کئے لیکن تعداد پوری نہیں ہوئی۔ سو مبارک گھڑی اب تک نہیں آئی۔ اب شنید ہے کہ شاہ محمود قریشی اور کائرہ وغیرہ کے رابطے شروع ہو گئے ہیں۔ دلہن کی ڈولی گیٹ سے اندر لے جانے کے لیے کرائے کے کہاروں کی ضرورت ہے۔ جو کاندھا بھی نہ بدلیں۔ اور لپک جھپک سے ڈولی اندر پہنچا دیں۔ پیپلز پارٹی ایسے کہار مہیا کرنے کی قیمت کیا لے گی؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور یہ بھی کہ تحریک انصاف کو ہر قیمت پر دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ ایک اہم مقصد پورا کر سکے۔ اسے ٹاسک یہ ملا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم ختم کرے یا اس کے دانت ناخن نکال لے۔ اس ترمیم نے جہاں صوبوں کو بہت سے اختیارات دیئے تھے۔ وہاں جنرل مشرف کے ہاتھ پائوں بھی باندھ دیئے تھے۔ اب ہاتھ پائوں کھولنے کا وقت ہے۔ اور اس کے لیے ترمیم کا فندایلما کرنا ضروری ہے۔ جن لوگوں نے اپنے بچپن میں فیروز سنز کا ناول ’’میرا نام منگو ہے‘‘ پڑھا ہے۔ وہ فندایلما کی اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں۔ ناول کا ولن یہ کوڈ ورڈ کسی کو ختم کرنے کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ خیر۔ آمدم برسر مطلب۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئی ایم ایف کا ٹاسک ناگ کی طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ امریکہ کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان کو قرضہ نہ ملے۔ اور ملے تو چین کا قرضہ واپس کرنے کے لیے استعمال نہ ہو۔ جبکہ پاکستان یہ قرضہ لے ہی اس لیے رہا ہے کہ چین کا قرضہ اتارے۔ اس پر پابندی ہو تو پاکستان یہ قرضہ لے کر کیا کرے گا؟ تب تو یہ بے کار کا بوجھ ہو گا۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ حکومتی اخراجات یا ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف بین الاقوامی قرضے واپس کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ سنگین معاملہ ایک اور ہے۔ جو آئی ایم ایف سے جڑا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار پاکستان نے قرضے کے لیے رجوع کیا تو دیگر کڑی شرائط کے ساتھ ساتھ دو نئی اور اہم شرائط بھی عائد کی جائیں گی۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہو گی کہ پاکستان سی پیک کا سائز چھوٹا کرے۔ اسے اتنا نہ پھیلائے۔ جتنا پھیلا رہا ہے۔ اور جواز یہ دیا جائے گا کہ جتنا زیادہ پھیلاوا ہو گا۔ اتنا قرضہ لیا جائے گا۔ سو قرضہ کم کرنے کے لیے سی پیک کا سائز کم کر دیا جائے۔ اسی سے جڑی دوسری شرط یہ ہو گی کہ سی پیک کی آمدنی سول حکومت کے خزانے میں جائے۔ اور اس پر کسی اور کا کنٹرول نہ ہو۔ جبکہ دوسری اور زیادہ سنگین شرط کا تعلق پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہو گا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایٹمی پروگرام کے اخراجات اور ترقی مانیٹر کرنا اور پھر اس کا کنٹرول حاصل کرنا امریکیوں کا پرانا خواب ہے۔ اور اس بار آئی ایم ایف کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دونوں شرطیں پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ کیونکہ کوئی غیرت مند ملک اپنی آزادی کو گروی نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا معاملہ شاید اتنا آسان نہ ہو۔ چنانچہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے متبادل ذرائع ابھی سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں چینی حکومت بھی دلچسپی لے رہی ہے۔ اسی طرح سعودی ولی عہد کے مجوزہ دورۂ پاکستان سے بھی کچھ اچھی امیدیں وابستہ ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب خود مالی بحران کی زد میں ہے۔ لیکن سرکاری ذرائع پُر امید ہیں کہ اس کے باوجود وہ پاکستان کی مدد سے منہ نہیں موڑے گا۔ ترکی تیسرا ملک ہے جو اس نازک گھڑی میں پاکستان کے کام آسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران سے ٹیلی فون پر بات کرنے والے ترک صدر نے ہر طرح سے مدد دینے کا یقین دلایا ہے۔ ادھر سعودی عرب کو بعض معاملات میں پاکستان سے اگرچہ شکوہ ہے۔ لیکن ان کا تعلق سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ہے۔ تاہم ایک معاملہ ایسا ہے۔ جس میں کوتاہی کا پرنالہ صرف پاکستان کی طرف گرتا ہے۔ اور وہ یہ کہ سعودی عرب جب بھی رازداری سے پاکستان کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہے۔ بعض پاکستانی حکام امریکیوں کو ساری تفصیل سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ بلکہ شواہد بھی مہیا کر دیتے ہیں۔ اور یہ کام وزارت خزانہ کے افسران ہی کرتے ہیں۔ مثلاً 1997ء میں نواز حکومت زبردست مالیاتی دبائو کا شکار تھی۔ تب اس وقت کی حکومت کی درخواست پر سعودی عرب نے پاکستان کو تیل کی ترسیل مفت کر دی تھی۔ مگر ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے کو پوشیدہ رکھا جائے۔ تاکہ ان پر امریکی دبائو نہ آئے۔ لیکن اس وقت وزارت خزانہ کے ایک منہ چڑھے خود ساختہ ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا سی آئی اے کے پسندیدہ لوگوں میں سے ایک تھے۔ تب حفیظ پاشا ایک وفد لے کر واشنگٹن گئے۔ اور وہاں سعودی تیل کی ساری تفصیل امریکیوں کو بتا دی۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہ کتنی مالیت کا تیل آچکا ہے۔ اور کتنا آنا ہے۔ اس پر امریکیوں نے سعودیوں کی گوشمالی کی اور پھر مفت تیل آنا بند ہو گیا۔ حفیظ پاشا کی اس ملک دشمن حرکت پر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے نہ رہا گیا۔ اور انہوں نے تفصیلی بیان دیا کہ حفیظ پاشا نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کیا ہے۔ اور ریاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بیان اس وقت کے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ حفیظ کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ الٹا وہ نواز حکومت کے اور قریب ہو گئے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد امریکہ کے حکم پر حفیظ پاشا کو حکومت میں اہم منصب دینے کا معاملہ آیا تو ان کی سابقہ بدنامی کے سبب انہیں بظاہر دور رکھا گیا۔ لیکن ان کی دوسری اہلیہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کو پنجاب کا وزیر خزانہ لگا دیا گیا۔ لیکن وہ صرف نام کی وزیر تھیں۔ ساری پالیسیاں حفیظ پاشا بناتے تھے۔ اور بہت سے فوائد اٹھاتے تھے۔ نئی حکومت اور نئے وزیر خزانہ کو حفیظ پاشا جیسے لوگوں سے دور رہنا ہو گا۔ تاکہ ان کی ساکھ بننے سے پہلے بگڑ نہ جائے۔ ایک اور بات۔ وزیر اعظم ہائوس میں کسی وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی اور بنی گالہ میں کسی بیوی نے مدت پوری نہیں کی۔ اب اقتدار کی دلہن تو پی ٹی آئی نے چرا لی ہے۔ لیکن اسے رکھیں گے کہاں؟
٭٭٭٭٭