امت رپورٹ
بنی گالہ میں اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں، تاہم اب تک پنجاب اور خیبر پختون کے وزرائے اعلیٰ کے نام فائنل کرنے میں پی ٹی آئی ناکام ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں اتحادی حکومت کے وزیر اعلیٰ کے معاملے پر بھی تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند نے مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ پارٹی کے کئی رہنمائوں کے نام وزارت اعلیٰ پنجاب کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اب اس میں میاں محمد اسلم اقبال اور راجہ یاسر ہمایوں کے نام بھی آ گئے ہیں۔ تاہم اس منصب کے لئے علیم خان کا نام بدستور سرفہرست ہے۔ کیونکہ علیم خان کو پارٹی چیئرمین کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی حمایت حاصل ہے۔ ذرائع کے بقول علیم خان ان چند پارٹی رہنمائوں میں سے ایک ہیں، جن کے عمران خان کے ساتھ فیملی تعلقات ہیں۔ علیم خان کی اہلیہ اور بشریٰ بی بی ایک دوسرے کی گہری سہیلیاں بھی بن چکی ہیں۔ الیکشن سے قبل عمران خان اور بشریٰ بی بی جب عمرے کے لئے سعودی عرب گئے تھے تو علیم خان نے اپنی جیب سے طیارہ چارٹرڈ کرایا تھا۔ اس عمرے میں علیم خان کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی کی حمایت نے اگرچہ علیم خان کی پوزیشن مضبوط بنا رکھی ہے، تاہم علیم خان کے راستے میں واحد رکاوٹ نیب میں ان کے خلاف جاری انکوائری ہے۔ چار اگست کو نیب نے علیم خان کو طلب کر رکھا ہے۔ اب پارٹی چیئرمین کشمکش کا شکار ہیں کہ اگر علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر نامزد کرتے ہیں تو اپوزیشن اس کو ایشو بنائے گی کہ ایک نیب زدہ شخص کو یہ منصب کیوں دیا گیا۔ جبکہ خود ان کی پارٹی کے کئی رہنما اس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایک پارٹی عہدیدار کے بقول علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے کی صورت میں بڑا عجب تماشا ہو گا کہ موجودہ اور سابق دونوں وزرائے اعلیٰ نیب کے چکر لگا رہے ہوں گے۔ واضح رہے کہ نیب نے 20 اگست کو آشیانہ اسکیم اسکینڈل میں شہباز شریف کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بیان کردہ سنیاریو کے باوجود فی الحال وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں علیم خان آگے ہیں۔ جبکہ شاہ محمود قریشی کا نام اب زیر غور نہیں رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ تجویز دی جا رہی تھی کہ میانوالی سے کامیاب ہونے والے ایم پی اے سبطین خان کو عارضی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب بنا کر شاہ محمود قریشی کو ضمنی الیکشن جیتنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ سبطین خان کو عمران خان کے کزن انعام اللہ نیازی پی ٹی آئی میں لے کر آئے تھے۔ ذرائع کے بقول مستقبل کی خاتون اول کی حمایت کے باوجود اگر علیم خان وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بنے تو پھر کوئی بالکل نیا نام سامنے آ سکتا ہے۔
ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختون کے طور پر عاطف خان تاحال مضبوط امیدوار ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق خود عمران خان کی بھی خواہش ہے کہ عاطف خان کو یہ منصب دے دیا جائے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عاطف خان کو پارٹی چیئرمین کی نجی محفلوں کے شریک کار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول یہاں بھی وہی صورت حال ہے کہ عاطف خان کے خلاف احتساب کمیشن خیبر پختونخوا کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد حامد خان نے بدعنوانی کی تحقیقات شروع کرا رکھی تھیں۔ بعد ازاں جنرل حامد احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے۔ تاہم اس انکوائری کی فائلیں اب بھی موجود ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مردان کے رہائشی عاطف خان نے 2008ء میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔ اس وقت انہوں نے اسلام آباد میں اپنی دوا ساز کمپنی کھول رکھی تھی اور رہائش سیکٹر ایف الیون میں تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی آئی کو ایک سیٹ ملنا بھی مشکل ہوا کرتی تھی۔ تاہم عاطف خان کے پی کے میں چھ سات ہزار افراد کا جلسہ کرا کر عمران خان کی نظروں میں آ گئے۔ اور بعد ازاں یہ قربتیں بڑھتی چلی گئیں۔ گزشتہ حکومت میں عاطف خان صوبائی وزیر تعلیم تھے۔ تاہم ذرائع نے انکشاف کیا کہ وہ ایف اے پاس ہیں۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب پرویز خٹک نے عاطف خان سے چار برس بعد 2012ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ جب مینار پاکستان پر 2011ء کے جلسے کے بعد تحریک انصاف کا عروج شروع ہو چکا تھا۔ پرویز خٹک کے اپنے آبائی شہر نوشہرہ کی مقامی پارٹی قیادت ان کی شمولیت پر خوش نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام آباد میں عمران خان نے پرویز خٹک کے ساتھ پریس کانفرنس کرنی چاہی تو پی ٹی آئی نوشہرہ کے لوگوں نے کرسیاں چلا دی تھیں۔ بعد ازاں عمران خان کی کوششوں سے پرویز خٹک کو پارٹی کی نظریاتی قیادت نے قبول کر لیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون کے طور پر خود کو سب سے موزوں قرار دینے والے پرویز خٹک کی دلیل یہ ہے کہ ان کی ’’شاندار‘‘ کارکردگی کے باعث ہی پی ٹی آئی کو صوبے میں گزشتہ الیکشن سے زیادہ ووٹ پڑا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند اور جہانگیر ترین کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ سردار یار محمد رند کو شکوہ ہے کہ جہانگیر ترین نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی اجازت کے بغیر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے امیدوار کے طور پر جام کمال خان کے نام کا اعلان کر دیا۔ تاہم پی ٹی آئی اسلام آباد کے ذرائع نے سردار یار محمد رند کے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جہانگیر ترین نے پریس کانفرنس میں یہ اعلان پارٹی چیئرمین عمران خان سے مشاورت کے بعد کیا تھا۔ اور یہ کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما جام کمال کو پی ٹی آئی کی پوری سپورٹ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں بنی گالہ میں ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی بتاتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا جو وفد جام کمال کے ساتھ بنی گالا آیا تھا، اس نے دوران اجلاس عمران خان کے سامنے سردار یار محمد رند کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی۔ وفد کے ارکان کا چیئرمین پی ٹی آئی کو کہنا تھا کہ یار محمد رند کے خلاف مختلف جرائم کی متعدد ایف آئی آرز درج ہیں اور پورے صوبے میں کوئی ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جبکہ صوبائی حکومت سازی کے لئے آپ نے ایسے شخص کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔ ذرائع کے بقول اس دھلائی پر سردار رند نے کھسیانہ انداز میں معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بی اے پی کے وفد کو کہا کہ آپ ہمارے مہمان ہو، اس لئے عزت دے رہے ہیں۔ ایسی تلخ باتیں نہ کریں۔ جواب میں وفد کے ارکان نے کہا کہ وہ یار محمد رند کے نہیں، بلکہ عمران خان کے مہمان ہیں۔ ذرائع کے مطابق سردار رند کی جانب سے جام کمال کے نام کی مخالفت کرنے کے پیچھے یہی قصہ کار فرما ہے۔ جبکہ وہ اندرون خانہ عمران خان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یا تو انہیں گورنر بلوچستان بنایا جائے یا انہیں سینئر منسٹری اور ان کے بیٹے کو صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو بنا دیا جائے۔
٭٭٭٭٭