عباس ثاقب
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ رخسانہ کی بات پر فوری طور پر کیا ردِ عمل ظاہر کروں۔ میں نے یاسر سے اس کے رشتے کو موزوں سمجھتے ہوئے اپنی طرف سے نیک نیتی کے ساتھ ایک تجویز ضرور پیش کی تھی۔ لیکن ظاہر ہے، اصل فیصلہ تو رخسانہ ہی کو کرنا تھا، اور اس نے بلاشبہ بالکل واضح طور پر اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس کا فیصلے میری توقع کے خلاف تھا۔ تاہم مجھے یہ قلق ضرور ہوا کہ اس کی طرف سے اس بے ٹوک انداز میں مسترد کیے جانے پر بے چارے یاسر کو بلاوجہ خجالت کا سامنا کرنا پڑا، جس کا واحد ذمہ دار میں تھا۔
میں جانتا تھا کہ میرے الفاظ یاسر کے پندار کو پہنچنے والے ٹھیس کا مداوا نہیں کر سکتے۔ مگر بہر حال اس سے معذرت مجھ پر واجب تھی اور اس کے لیے رخسانہ کے وہاں سے رخصت ہونے کا منتظر تھا۔ لیکن چائے کے کپ میز پر رکھنے کے بعد بھی وہ مجرموں کی طرح وہیں کھڑی رہی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور ہونٹ دھیرے دھیرے لرز رہے تھے۔ میں نے اس کی کیفیت سمجھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے اچھا کیا رخسانہ صاحبہ، جوآپ نے اسی مرحلے پر معاملہ صاف کر دیا۔ میں آپ کی صاف گوئی کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یاسر بہت سمجھ دار اور حقیقت پسند انسان ہیں۔ یہ آپ کے انکار پر دل میں ہرگز ملال نہیں رکھیں گے‘‘۔
یاسر نے سر ہلاکر میری تائید کی۔ قدرے توقف کے بعد رخسانہ نے کہا۔ ’’یاسر صاحب بلاشبہ بے حد اچھے انسان ہیں۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں، جن کی کوئی لڑکی اپنے شوہر میں تمنا رکھ سکتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ میں نے اپنے آپ سے ایک عہد کر رکھا ہے، جس کی تکمیل تک میں شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں اس طرح دل شکنی پر یاسر صاحب سے معافی کی طلب گار ہوں۔ میرے انکار کا مطلب انہیں مسترد کرنا ہرگز نہیں ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹی اور بیٹھک سے باہر نکل گئی۔ مجھے لگا کہ اس موضوع پر مزید گفتگو سے بچنے کے لیے وہ اتنی عجلت میں رخصت ہوئی ہے۔
کئی لمحوں تک وہاں سناٹا طاری رہا۔ بالآخر میں نے چائے کی پیالی اٹھاکر یاسر کے حوالے کرتے ہوئے اس سے معافی طلب کی۔ زبان سے کچھ کہنے کے بجائے اس نے پیالی لے کر دوبارہ میز پر رکھی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر مجھے گلے لگالیا۔ ’’اس میں تمہارا کیا قصور ہے میرے بھائی‘‘۔ اس نے میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’تم تو میرے لیے اچھا ہی سوچ رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ رب العزت کی کچھ اور مرضی تھی۔ تم سب کو دکھی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یقین کرو میری کوئی دل شکنی نہیں ہوئی۔ میں ان مراحل سے بہت آگے نکل چکا ہوں‘‘۔
یاسر کو اس وقت خود دل جوئی کی ضرورت تھی، لیکن وہ بڑے دل والا انسان ہمیں تسلی دے رہا تھا۔ میں نے ماحول کا بھاری پن دور کرنے کے لیے موضوع بدلنے کی کوشش کی، لیکن کچھ زیادہ کامیابی نہ ملی۔ بالآخر ہم نے نشست برخاست کی اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہا۔ ظہیر اور میرے لیے اسی بیٹھک میں سونے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جبکہ یاسر اپنے بھتیجے کے ساتھ اس کے کمرے میں شب بسری کے لیے چلا گیا۔ صبح بیدار ہونے پر میں ناشتے کے لیے بلانے گیا تو ناصر سے پتا چلا کہ یاسر شام کو واپس آنے کا کہہ کر علی الصباح لدھیانے چلا گیا ہے۔ بیٹھک میں ناشتہ رخسانہ ہی لے کر آئی۔ یاسر کے اس طرح رخصت ہونے کا پتا چلا تو وہ مجھے کچھ محجوب، بلکہ دل برداشتہ سی دکھائی دی۔ بالآخر میں نے اس سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
ناشتے کے بعد میں اندر گیا اور رخسانہ اور جمیلہ کو اپنے سامنے بٹھاکر سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’ہو سکتا ہے آپ دونوں ابھی مجھے اس قدر قابلِ اعتماد نہ سمجھتی ہوں کہ اپنے دل کی بات بے دھڑک مجھے بتاسکیں۔ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ درخواست ضرور کروں گا کہ آپ اپنے لیے زندگی کی جو بھی راہ اختیار کرنا چاہیں، اس سے مجھے باخبر رکھیں۔ تاکہ ایسی ناخوش گوار صورتِ حال سے دوبارہ بچا جا سکے‘‘۔
میری بات سن کر رخسانہ نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر جانے کیا سوچ کر خاموشی سے سر جھکا لیا۔ اس کے بجائے جمیلہ نے مجھے مخاطب کیا۔ ’’یہ اچھی خاصی پاگل لڑکی ہے جمال بھائی۔ ضرورت سے زیادہ جذباتی اور حساس۔ شادی کے معاملے میں تو اس کی کھوپڑی بالکل ہی کھسکی ہوئی ہے۔ لیکن اس میں اس کا بھی اتنا قصور نہیں ہے۔ ہم نے جو زندگی گزاری ہے، اس میں عام لوگوں جیسے جذبات و احساسات اور سوچ کہاں سے آتی‘‘۔
یہ کہہ کر وہ کچھ ثانیوں کے لیے خاموش ہوئی اور اپنی بڑی بہن کا جائزہ لیا، جس کی آنکھوں میں اب واضح طور پر موتی جگمگارہے تھے۔ میں نے جمیلہ کو بات مکمل کرنے کا موقع دیا۔ ’’شازیہ باجی، اسے سمجھا سمجھا کر ہارگئیں۔ میں نے بھی اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی، لیکن اس کے دماغ میں بیٹھا ایک بھیانک خوف کم نہیں ہو پایا‘‘۔
میں بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔ ’’کیسا خوف؟‘‘۔
جمیلہ نے ایک گہرا سانس بھر کے بات آگے بڑھائی۔ ’’یہ اس سوچ سے کسی بھی طرح پیچھا نہیں چھڑا پاتی کہ اگر قسمت نے اسے کبھی کسی بھلے مانس کی شریکِ حیات بننے کا موقع دے بھی دیا تو ساری زندگی اس کی نظروں میں پوشیدہ سوالات کا سامنا کرتے گزارنی پڑے گی کہ جانے کون کون ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا چکا ہے۔ اسی لیے اس نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭