عمران کی ناکامی پر صدارتی نظام لانے کیلئے مشاورت شروع
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) یہ تو طے ہے کہ چلانے والے پارلیمانی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اور یہ بات ان کے ذہن میں جگہ بنا چکی ہے کہ موجودہ نظام ریاست کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اس لئے اس کی جگہ ایک ایسے صدارتی نظام کو دی جانی چاہئے، جس میں اختیارات کلیتاً صدر کے پاس ہوں۔ حرکت کے لئے ایک وزیراعظم ہو اور برکت کے لئے ایک پارلیمنٹ۔ لیکن کابینہ سازی سے لے کر وزیراعظم کی تقرری تک اور پالیسی سازی سے لے کر فیصلہ سازی تک سارے سوتے ایوان صدر سے پھوٹتے ہوں۔ جہاں ممکنہ طور پر ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف صدارتی نظام کے پہلے پاسبان کے طور پر براجمان ہو سکتے ہیں۔ تب تک سعودی عرب میں ان کے معاہدے کی مدت بھی ختم ہو چکی ہو گی۔ دارالحکومت کے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ نظام کی اس تبدیلی کے لئے ایک بار پھر ریفرنڈم کا سہارا لیا جائے گا اور ضیا اور مشرف دور کے تجربات کو کام میں لایا جائے گا۔ گویا صدر بھی عوامی ریفرنڈم سے منتخب ہو گا۔ جیسے کہ طیب اوردگان منتخب ہوئے ہیں یا جیسے فرانس کا صدر منتخب ہوتا ہے۔ ذرائع کے بقول فیصلہ سازوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم ان کے لئے دانستہ یا غیر دانستہ رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ان کی ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتے، جوتم پیزار میں الجھے رہتے ہیں۔ جس سے فیصلہ سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے یا رک جاتا ہے۔ لہٰذا پارلیمانی نظام کے گلے میں رسا ڈالنا اور اسے کسی کھونٹے سے باندھنا ضروری ہے اور یہ کام موجودہ حکومت کے ناکام ہونے کی صورت میں زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تب عوام کا وہ طبقہ بھی موجودہ سسٹم سے مایوس ہو جائے گا۔ جسے عمران خان کی صورت میں ایک امید دکھائی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران حکومت کی ناکامی سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہی طاقتیں صدارتی نظام کا راستہ ہموار کر رہی ہیں، جو عمران کو حکومت میں لائی ہیں۔ شاید ان کے نزدیک پارلیمانی نظام کے تابوت میں آخری کیل گاڑنے کے لئے عمران کا وزیراعظم بننا ضروری تھا اور اسے کمزور اکثریت دلانا بھی۔ تاکہ وہ خود کو بچانے میں ہی مصروف رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی نظام حکومت ہمیشہ فوجی آمروں کا پسندیدہ نظام رہا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور مشرف نے ناصرف اس نظام کو پسند کیا اور اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی، بلکہ اپنے اپنے مقام پر اسے طرز حکومت کے طور پر بھی نافذ کیا۔ ذریعے کے بقول وجہ یہ ہے کہ صدارتی نظام میں چپراسی سے لے کر وزیراعظم تک سب صدر کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ اور ان کی تقرری، تبادلے اور ترقی کے احکامات ایوان صدر کے دائرہ اختیار میں آ جاتے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم ایک اور رکاوٹ ہے۔ جس نے کئی معاملات میں غیبی طاقتوں کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اس ترمیم میں ترمیم کے لئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہے، جو ظاہر ہے کبھی نہیں مل سکتی۔ سو اس سے نجات کا آسان راستہ بھی صدارتی نظام کا نفاذ ہے۔ ذریعے کے بقول کئی آئینی ماہرین سے اس بارے میں مشورے ہو چکے ہیں اور سب کا اتفاق ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو کھونٹے سے باندھا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت کے ایک اہم ذریعے کے بقول صدارتی نظام ان حلقوں کی دیرینہ خواہش تھی، جن کے نزدیک پارلیمانی نظام ان کی ضرورت پوری نہیں کر رہا۔ لیکن یہ کھلواڑ ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے۔ اس ملک میں ایک سے زائد بار صدارتی نظام نافذ ہوا ہے اور ہر بار ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر پیچھے ہٹا ہے۔ مثلاً ذریعے کے بقول ایوب خان کے دور میں علاقائی اور لسانی طاقتوں نے زور پکڑا، کیونکہ صدارتی نظام کے باعث قومی سیاسی جماعتوں کے لئے کام کے راستے محدود ہو گئے تھے۔ یحییٰ خان کے دور میں ملک ٹوٹ گیا۔ کیونکہ صدر نے اپنے سیاسی مستقبل کے تحفظ کے لئے ایسے الیکشن کرائے، جس میں دونوں طرف انتہا پسند سوچ رکھنے والے لبرل رہنماؤں نے اکثریت حاصل کی اور یوں وہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا کام آسان ہو گیا۔ جسے مغربی پاکستان کے تمام اہم ادارے خود پر بوجھ سمجھتے تھے۔ اگر یہ سچ نہ ہوتا تو پاکستان ٹوٹنے پر یحییٰ خان کو سزا دی جاتی۔ لیکن اسے تو قومی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دے کر دفنایا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں متحدہ جیسا خوفناک عفریت تخلیق ہوا۔ مشرف دور میں شہری سندھ، بلوچستان اور فاٹا بدترین تشدد، ظلم اور خانہ جنگی کا شکار رہے۔ اتنے زیادہ کہ اس کے نتائج سے قوم آج تک نہیں نکل سکی۔ تب دہشت گردی کی امریکی جنگ پاکستان پر مسلط کر دی گئی، جو آج تک جاری ہے اور جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہید، زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔ ذریعے کے بقول صدارتی نظام میں ایک آدمی عقل کل ہوتا ہے۔ دوسرے اسے مشورہ دے سکتے ہیں، ہدایات نہیں۔ اور یہ نظام صرف ان معاشروں میں کامیابی سے چل سکتا ہے، جہاں عوامی شعور بہت بیدار ہو۔ ریاست کے سول ادارے مضبوط اور خود مختار ہوں۔ عدلیہ کسی دباؤ کی زد میں نہ ہو اور جہاں بڑی اور مقبول ترین سیاسی جماعتیں اس نظام کو سپورٹ کرتی ہوں۔ ذریعے کے بقول دنیا کے 44 ملکوں میں صدارتی جبکہ 73 ملکوں میں پارلیمانی نظام چل رہا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی نظام کی کامیابیاں اس کی ناکامیوں سے زیادہ ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ جن ملکوں میں بھی صدارتی نظام نافذ ہے۔ وہاں سیاسی جماعتوں کے علاوہ میڈیا، سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور عدلیہ سمیت ہر اہم ادارہ اس طرز حکومت کا حامی ہے۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ ایک ریفرنڈم کے زور پر پارلیمانی نظام کو یکسر فارغ کر دیا گیا ہو۔ نظام کی تبدیلی سے پہلے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی جاتی ہے اور ان کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے۔ ذریعے کے بقول اگر موجودہ پارلیمنٹ نظام کی تبدیلی منظور کر لے تو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی منظوری اسے مل سکتی ہے۔ لیکن فیصلہ سازوں کو علم ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ یہ کام کسی صورت نہیں کرے گی۔ اس لئے متبادل حکمت عملی کے طور پر ریفرنڈم کے ذریعے تبدیلی پر غور کیا جا رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ ایک ایسا نظام ہو گا۔ جس کی مخالفت میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں کھڑی ہوں گی اور نظام کے چلنے سے پہلے اس کی ناکامی کے آثار نمودار ہو جائیں گے۔