عظمت علی رحمانی
کراچی کے میئر وسیم اختر نے گارڈن مارکیٹ کے 500 سے زائد دکانداروں کو 3 روز کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ دکانیں خالی نہ کرنے والوں کی دکانیں سامان سمیت منہدم کر دی جائیں گی۔ گارڈن کے ایم سی مارکیٹ 1962ء سے اب تک کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتی آئی ہے۔ دکان کے مالکانہ حقوق ٹرانسفر کرنے سمیت دیگر قانونی مسائل بھی کے ایم سی حل کرتی رہی ہے۔ مارکیٹ کے انہدام سے 20 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔
کے ایم سی نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد شہر میں تجاوزات ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم بعض تجاوزات کو تاحال چھوڑ کر اس کی جگہ برسوں پرانی کاروباری سرگرمیوں کی حامل مارکیٹوں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ نومبر 2018ء کے دوسرے ہفتے میں شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں تیزی صدر کی معروف مارکیٹ ایمپریس مارکیٹ کے ساتھ موجود سینکڑوں دکانیں گرانے کے بعد آئی۔ دوسرے مرحلے میں لائٹ ہاؤس مارکیٹ کو گرایا گیا۔ جس کے بعد اب تیسرے مرحلے میں گارڈن کے ایم سی مارکیٹ کو گرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے تجاوزات آپریشن کے اجلاس میں افسران کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ شہر میں موجود 9 ہزار سے زائد دکانیں مسمارکی جائیں گی۔ جو کے ایم سی کی زمین پر تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں۔ وسیم اختر کی موجودگی میں افسران کو دی جانے والی پریزنٹیشن کے مطابق شہر کی معروف مارکیٹیں، جن میں مچھی میانی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، لی مارکیٹ، رنچھوڑ لائن، گارڈن کے ایم سی مارکیٹ، ڈبلیو او مارکیٹ، حقانی چوک، ٹی پلاٹ گارڈن، پچر روڈ نالہ مارکیٹ، مدینہ کلاتھ، جوبلی، اورنگزیب مارکیٹ، اکبر روڈ نالہ پر دکانیں، کورنگی مارکیٹ، ناظم آباد بس اسٹاپ کے علاوہ اولڈ ڈسپنسری، موتی لعل نہرو مارکیٹ کی دکانوں سمیت فاطمہ جناح شکارپور مارکیٹ، گول مارکیٹ، لیاقت آباد کی دکانیں، لِلی برج کینٹ اسٹیشن کی دکانیں، پی آئی بی اسٹیڈیم اور سندھی مسلم سوسائٹی شامل ہیں، میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔
کے ایم سی حکام نے گارڈن کے ایم سی مارکیٹ کے 500 سے زائد دکانداروں سے کہا ہے کہ وہ تین روز کے اندر یعنی ہفتے تک دکانیں خالی کردیں۔ بصورت دیگر آپریشن کیا جائے گا۔ اس انتباہ کے بعد گارڈن کے ایم سی مارکیٹ کے سینکڑوں دکاندار پریشان ہیں۔ معلوم رہے کہ گارڈن کے ایم سی مارکیٹ کے قریب ہی واقع گورنمنٹ فاطمہ جناح اسکول و کالج کے فٹ پاتھ پر قبضہ کرکے دکانیں اور آئل کے کیبن قائم کرلئے گئے ہیں، جن سے ماہانہ بھتہ کے ایم سی افسران اور پولیس کے علاوہ مختلف تنظیموں کو جاتا ہے۔ مذکورہ دکانوں کے سامنے قبضے و تجاوزات فاروق ستار کی قائم کردہ ہیں۔ گارڈن میں روزانہ ٹریفک جام کے مسائل بھی انہی انکروچمنٹ کی حامل دکانداروں کی وجہ سے ہیں، جن کو وسیم اختر انکروچمنٹ ہی نہیں سمجھ رہے۔ اس کے علاوہ گارڈن میں ہی ایک بلڈنگ شیرٹن ہائٹ کی پارکنگ ایریا کو ختم کر کے وہاں بھی دکانیں قائم کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے پارکنگ باہر کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ گارڈن کے ایم سی مارکیٹ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں جنرل اعظم کی نگرانی میں بنائی گئی تھی۔ اس میں 200 سے زائد دکانیں اور دکانوں کے اوپردفاتر قائم ہیں۔ ایک دکان 12 فٹ لمبائی اور 16 فٹ چوڑی ہے، جس سے کے ایم سی حکام ہر 6 ماہ بعد 75 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ وصول کرتے ہیں۔ جبکہ اصل تجاوزات کو چھوڑ کر اس کی جگہ کے ایم سی کی برسوں پرانی قانونی دکانوں کو ختم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے زولوجیکل گارڈن مارکیٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری آصف شہزاد کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے دکانداروں نے کے ایم سی حکام کو جنوری تک کا کرایہ ادا کیا ہے۔ ہمیں کے ایم سی کی جانب سے تقریباً ایک ماہ قبل نوٹسز جاری کئے گئے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ آپ کو دو ماہ کو وقت دیا جارہا ہے، جس کے بعد دکانیں خالی کرائی جائیں گی۔ تاہم ہمیں ان دکانوں کا متبادل بھی نہیں دیا جارہا۔ ان دکانوں سے 20 ہزار سے زائد افراد کا کاروبار وابستہ ہے۔ یہاں کے دکانداروں کے لاکھوں روپے شہر کے دیگر چھوڑے دکانداروں اور گاڑیوں اور دیگر متعلقین کی جانب واجب الادا ہیں۔ دکانیں ختم کرنے کی صورت میں لاکھوں روپے ڈوبنے کے بھی خدشات ہیں‘‘۔
علاقے کی سماجی شخصیت طارق شاداب کا کہنا ہے کہ مذکورہ مارکیٹ میں موجود دکانداروں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان کو یہاں سے ہٹایا گیا تو متبادل کے طور پر نشتر روڈ پر قائم کے ایم سی ورکشاپ ان کو فراہم کی جائے گی۔ تاہم اب میئر کراچی وسیم اختر مذکورہ دکانداروں کو کوئی بھی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے یہ ہے کہ ان دکانوں کو متبادل فراہم کیا جائے۔ برسوں پرانی دکانوں کو گرانے کا مطلب ان کا معاشی قتل کرنا ہے۔ شہر میں ٹریفک کی روانی اور خوبصورتی ہماری اور وقت کی ضرورت ہے۔ مگر چلتا ہوا کاروبار تباہ کرنا بھی قرین انصاف نہیں‘‘۔
گارڈن مارکیٹ میں جلال کباب کے مالک عقیل شنواری کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے بزرگ اس دکان کو چلاتے رہے ہیں اور اب اسے گرانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہاں اس دکان میں، میں گزشتہ 25 برس سے کام کررہا ہوں اور مسلسل کے ایم سی کو کرایہ دے رہے ہیں۔ اس مارکیٹ میں 500 کے قریب دکانیں و دفاتر ہیں، جہاں پر چمک پٹی، اسپیئر پارٹس، بیٹری، گاڑیوں کا سامان سمیت دیگر اشیا فروخت کی جارہی ہیں۔ ان دکانوں کو ختم کرنے کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ان افراد سے ان کا روزگار چھیننے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جبکہ حکومت پر ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ عوام کی روزی روٹی کا خیال رکھے۔ آج 60 برس بعد ان کو کیسے یاد آیا کہ یہ دکانیں غیر قانونی ہیں۔ کرایہ کیوں وصول کرتے رہے۔ ہمیں ان دکانوں کا متبادل دیا جائے، تاکہ ہم کم از کم اپنے بچوں کیلئے روزی روٹی تو کما سکیں‘‘۔
گارڈن مارکیٹ کے دکاندار رضوان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں اور ہمارے والد صاحب اس مارکیٹ میں ابتدائی لوگوں میں سے ہیں۔ اب دوسری اور تیسری نسل ان دکانوں کو چلا رہی ہے۔ لوگوں کا چلتا ہوا کاروبار تباہ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ہماری حکومت سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کا متبادل فراہم کیا جائے، تاکہ ہم وہاں شفٹ ہوکر اپنی کاروبار سرگرمیاں شروع کریں اور ان دکانوں کو پھر ہم خود خالی کریں۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی حکومت عوام کو سہولیات دینا چاہ رہی ہے‘‘۔