مولانا مودودی پر الزامات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے

0

محمد فاروق
انہی دنوں میں نے ایک اردو اخبار کے اندرونی صفحات پر ایک مولانا صاحب کا مضمون پڑھا تھا۔ اس نے حضرت ہزاروی کے ساتھ اپنی دیرینہ رفاقت کی کہانی لکھی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ حضرت ہزاروی جس انداز سے مولانا مودودیؒ کو اسلام کے حق میں ایک بدترین خطرہ بتاتا تھا اور اس کو کفار و مشرکین کے مقابلے میں بھی اسلام کے لیے زیادہ تباہ کن باور کراتا تھا تو اس پر میرے دل میں کبھی کبھی شک سا پیدا ہو جاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ اگر مودودی اپنے فکر و عمل میں اسلام کے لیے قادیانی یا اشتراکیوں سے بھی بڑا خطرہ ہے، تو آخر دوسرے کچھ علما کیوں اس کی جماعت سے وابستہ ہیں؟… اور پھر سب مل کر اس خطرے کا سد باب کیوں نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ پاکستان ہر لادین حکومت بھی اس شخص کی دشمن کیوں ہے؟
آخر ایک دن ہم اتفاق سے مولانا ہزاروی کے ساتھ ان کے ایک دورے کے دوران ایک ہوٹل میں قیام کے لیے اکٹھے ہوئے۔ میں عرض کیا کہ حضور! آج میں آپ سے ایک انتہائی ضروری گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے وقت دیں۔ میں حضرت کے قابل اعتماد عقیدت مندوں میں سے تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ رات عشا پڑھنے کے بعد میں آپ ہی کے کمرے میں آجاتا ہوں۔ میرے ساتھی تھکے ہوئے ہیں۔ ان کو آرام کا موقع ملے گا اور ہم دونوں کھل کر بات چیت کر سکیں گے۔ اس ملاقات میں جب میں نے اپنا اوپر ذکر شدہ سوال ان کے سامنے رکھا، تو ایک توقف کے بعد حضرت نے فرمایا: ’’دیکھو! میرے اور تمہارے درمیان کوئی تکلف نہیں۔ میں تمہیں صاف صاف بتانا چاہتا ہوں۔ علم دین اور شریعت کے حوالے سے مودودی کی چند تفردات اگر ہیں بھی تو وہ اتنی تشویش کی بات نہیں۔ ایسی باتیں زمانہ قدیم سے دوسرے علما بھی کہتے آئے ہیں۔ پھر ان تفردات کے جواب کے لیے دوسرے اہل علم موجود ہیں۔ مجھے اور آپ کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہے… اور جس کے لیے دن رات کر کے میں اپنی آخری حد تک لڑ رہا ہوں۔ وہ تم اور ہم سب علما کی وقعت اور اس ملک میں ہمارے وقار کا سوال ہے۔ تم سمجھدار ہو اور میری بات سمجھ سکتے ہو، لیکن علما طبقے کی اکثریت لا ابالوں کی ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اگر اس ملک میں مودودی کا سکہ چل گیا، تو تم علما کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا‘‘۔
میں نے عرض کیا، کہ حضرت آپ یقین سے فرمارہے ہیں کہ آپ کی اس ساری جد و جہد کا اصل مدعا یہی ہے؟
جواب دیا… ’’ہاں‘‘!۔
میں نے اسی وقت ان کے منہ پر کہہ دیا کہ حضرت آج سے میرے اور آپ کے راستے دوسرے سے الگ ہیں۔ میں ’’علما کے وقار‘‘ کی لڑائی میں اپنی قیمتی زندگی کو برباد نہیں کرسکتا۔ میرا خیال تھا کہ یہ خدا کی دین کی سربلندی اور علمائے حق کے منہج و مسلک کے مطابق دین کے غلبے کا کام ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ مجھے سچ سے آگاہ فرما دیا۔ میں صاف عرض کرتا ہوں کہ آج سے میں اس ’’لڑائی‘‘ میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں۔
اس پر مجلس برخاست ہوئی اور حضرت ناراضگی کے عالم میں اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔ میں ساری رات سو نہ سکا۔ اور عزم کیا کہ اب مولانا مودودیؒ کو خود ان کی کتابوں سے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ جن کو پڑھنے سے ہمیں حضرت نے سختی سے منع کیا تھا۔
برخوردار…! اس پورے اخبار کو میں نے اپنی لائبریری میں محفوظ کرلیا تھا۔ شاید اب بھی کہیں پڑا ہو۔ مگر کتابوں اور سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور بہت سے ساری اشیا کا مختلف فائلوں اور کارٹنوں میں محفوظ ہونے کی وجہ سے مجھے اخبار کے وہ صفحات مل نہیں رہے ہیں۔ اور نہ ہی مجھے اس مولانا صاحب کا نام ابھی یاد ہے۔ لیکن اتنا مجھے یاد ہے کہ اس کا تعلق ہری پور ہزارہ سے تھا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ روز اول سے حضرت ہزاروی اور ان جیسے دوسرے ’’علمائے حق‘‘ کو ’’کمر کے درد‘‘ سے پہلے ’’جگر کے درد‘‘ کا یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے…، کہ دین حق کی بات اگر کسی دوسرے بندہِ خدا کی جانب سے عام مسلمانوں تک پہنچتی ہے تو ان ’’اہلِ ہزار‘‘ کی عزت و توقیر کا سوال ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ اس پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہونے والے ’’نقصان‘‘ کے تدراک و ازالے کی صورت کیا ہوگی؟ اسی درد کی شدت انہیں مجبور کرتی ہے کہ ’’اگلی سیٹ‘‘ پر رکھی کسی اور کی چادر اٹھا کر پیچھے رکھ دیں اور خود تشریف فرما ہوجائیں۔ لیکن گاڑی کا ڈرائیور اور موجود مخلوق خدا اس عمل کو دوسرے کی سیٹ پر بیٹھنے کی ’’زیادتی‘‘ سمجھتی ہے۔ قدرت کو ان کے اس ’’دردِ جگر‘‘ پر کوئی رحم نہیں آتا… اور اگلی سیٹ کے اصل حقدار جب پہنچ جاتے ہیں تو انہیں بڑے بے آبرو ہو کر اترنا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ زندگی بھر جس ’’عزت‘‘ و توقیر کے لیے لڑائی لڑی تھی، وہ رائیگاں جاتی ہے۔ فقید المثال استقبالیہ جلوسوں کی کہانیاں یاد ماضی کا عذاب بن کر کالے سانپوں کی طرح یا تو اس تو دنیا میں ڈسنے لگتی ہیں یا اسی دنیا میں ان کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ پیرانہ سالی کی دہلیز پر پہنچ کر یہ کمر کے درد کے ساتھ درحقیقت ’’تن تنہا‘‘ ہوتے ہیں، گو کہ ان کے گرد کبھی عقیدت مندوں کا جم غفیر تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے آرزو مند ان کو بطور سیڑھی استعمال کر کے ان کو چند روزہ زندگی کی منفعتوں کی سیاحت ضرور کرواتے ہیں، مگر اللہ ان کے اعمال کے نتیجے میں لوگوں کے دل ان کے احترام سے خالی کر دیتا ہے۔ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور اپنی مہلت عمل میں بجز یہ کہ بقول سوزوکی ڈرائیور یہ ’’وقت ضائع کرتے ہیں‘‘… اور ’’دوسری سواریوں کو دیر کرواتے ہیں‘‘۔
عزیر جان…! تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم ذہنی طور پر ستّر کی دہائی میں پڑے ہیں، اور تمہارا وقت ان قصوں کہانیوں کو سنانے میں ضائع کر رہے ہیں۔ اگر تمہارا یا تمہارے دوستوں کا خیال ہے کہ اب وہ حالت باقی نہیں رہی ہے، اور کافی کچھ تبدیل ہوا ہے، تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم سو نہیں ایک سو دس فیصد غلطی پر ہو۔ کم از کم اس معاملے میں تو کچھ بھی نہیں بدلا اور کوئی تبدیلی ان ’’علمائے حق‘‘ کے رویوں میں نہیں آئی۔ نہ مستقبل قریب میں کبھی آ سکتی ہے۔ میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ ابھی کچھ دن پہلے ایک دوست نے ایک افسوس ناک واقعے کی خبر دی اور اس کا ویڈیوبھی دکھادیا۔
اس کا نام مفتی محمد امتیاز مروت ہے۔ یہ جامعہ بنوری کراچی سے درس نظامی کے فارغ ہیں۔ دورہ حدیث کے لیے مدرسہ دیوبند جانے کی سعادت بھی رکھتے ہیں۔ ختم نبوت میں مولانا منظور چینوٹی کے شاگرد اور جمعیت العلمائے اسلام کے بیالیس سال سے کارکن ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق انہوں نے ایم آر ڈی تحریک میں چار مہینے جیل کاٹی ہے، جس کے بدلے آقائے فضل الرحمن مد ظلہ کے جناب سے انہیں ’’بدری‘‘ ساتھی کا اعزاز عظیم بھی عطا ہوا ہے۔ ان کی کاوشوں میں ’’کاروان حریت‘‘ کے نام سے جمیعت العمائے اسلامی کی تاریخ اور کارناموں پر ایک تحریر شدہ کتاب موجود ہے۔ جبکہ ایک اور تصنیف ’’ضرب قائد‘‘ کے نام سے بھی مخدومی فضل الرحمن کی دینی و سیاسی خدمات عالیہ کے ذکر خیر پر مشتمل کتابی شکل میں کرہ ارض پر وجود رکھتی ہے۔ یہ ساری تفصیلات مفتی صاحب گراں قدر کی اپنے بیان کردہ ہیں، جو ایک ویڈیو انٹرویو میں ایک دوست نے مجھے دکھائی ہیں۔ مفتی صاحب کے لکھنے کی اس صلاحیت کو دیکھ کر آقائے فضل الرحمن کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھا کر مودودی کے فتنے کو ایک بار پھر عام وخاص کے سامنے طشت از بام کیا جائے…!۔
یہ ایک تلخ حقیت ہے، مگر ہے حقیقت کہ اسلام کے نام پر ان ’’علمائے حق‘‘ کے ہاں کاروبار سیاست کے کچھ ناگزیر تقاضے ہیں۔ اس ملک کا صاحب دانش طبقہ سمجھ چکا ہے کہ اسلام کے نام پر کسی ٹینڈر کے بند لفافے میز پر رکھ دیئے جائیں اور اہلیت کی بنیاد پر ایک کھلے مقابلے میں ’’ٹھیکے‘‘ کی سعادت سے علمائے حق کے بجائے کوئی ’’اور‘‘ مستفید ہو۔ لائن میں آگے پیچھے کھڑے ’’ٹھیکداران‘‘ میں سے بد قسمتی سے علمائے حق کے علاوہ کوئی اور بھی بہتر کارکردگی کا ریکارڈ رکھتا ہو۔ اس نئے ٹھیکدار کی کمپنی کے نظم و ضبط اور فرماں برداری کا شہرہ بھی کچھ اس انداز سے ہو کہ ایک مرتبہ کام ’’کر کے دکھانے‘‘ کا موقع ملا، تو پورا خدشہ موجود ہو کہ موروثی ٹھیکداران کے ہاتھ سے کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔ یہ حقیقت سامنے کا مشاہدہ بن رہی ہو کہ عوامی عدالتوں سے لیکر حکومتی ایوانوں تک میں ہر دستر خوان سے بہت ہی نامناسب، بھرپور اور خیانت آشنا استفادے کے حسین چکنا چور ہونے کا قوی امکان سر پر منڈلارہاہو، اور یہ یقینی مگر ناقابل قبول اندیشہ راتوں کی نیند حرام کردیں۔ تو بتائیے…! گھڑ دوڑ کی اس بلین ڈالر گیم میں بازی ہارنے کا جانکاہ حادثہ پیش آنے سے پہے فتنہ مودودیت کی آگ کو پوری قوت سے ہوا دینے کے سوا دوسرا چارہ ہے کہاں؟ اس آگ کو تازہ نہ رکھنے اور ہمیشہ اسے ہوا اور پھونکیں دے کر نہ بڑھانے کا مطلب ان ’’اہل حق‘‘ کے ہاں اپنے ڈیتھ وارنٹ پر خود دستخط کرنے اور خود کشی کا ارتکاب کرنے سے کم کوئی شے ہر گز نہیں۔
چنانچہ مفتی صاحب کو حکم ہوا کہ ’’علمائے حق‘‘ کے ہاں اس دیرینہ اور پسندیدہ موضوع پر قلم اٹھایا جائے۔ شومیٔ قسمت کہ جب حضرت مفتی نے اس کام میں ہاتھ ڈالا، تو ان کی علم کی سچائی اور ان کے ایمان کی راست بازی و حق پرستی نے ایک اور نقشہ سامنے رکھ دیا۔ معلوم ہوا کہ آج تک سید مودودیؒ پر جتنے اعتراضات ایک ’’اصولی تنقید‘‘ کے نام پر کر کے سیدؒ کو اسلام کے جادۂ مستقیم سے الگ ہونے اور تفرد کا راستہ اختیار کرنے کا الزام دیا جاتا تھا، وہ دراصل ہر غلام ہزاروی کی جانب سے علمائے حق کی توقیر کی خاطر لڑنے والی لڑائی کا حصہ تھا اور خود ’’علمائے حق‘‘ ہی کے جادہ مستقیم سے ہٹ جانے کا ثبوت تھا، نہ کہ سید مودودیؒ کی تفردات…! انجام یہ ہوا کہ مفتی امتیاز، صاحب حق نے نہ صرف جمیعت العمائے اسلام کو خیر باد کہا، بلکہ ’’علمائے حق‘‘ کی تربیت میں زندگی کا نصف حصہ صرف کرنے والا مفتی امتیاز اب اس سید مودودیؒ کے نام کے ساتھ پورے آداب بجالا کر رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ کا اضافہ بھی کرتا ہے۔ جس مولانا مودودیؒ کے لیے انہی علمائے حق کے ہاں ’’سو یہودی‘‘ کے خطاب سے کم کوئی لفظ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔ مفتی امتیاز صاحب اب اسی سید مودودیؒ کے کام و مقام پر حقائق کو آشکار کرنے کے راہ پر گامزن ہیں۔
مجھے بے شک افسوس ہوا ہے کہ آقائے فضل الرحمن کی امیدیں، کم از کم ایک حق پرست مفتی امتیاز کے ہاں، بھر نہیں آسکیں۔ گو کہ اس کے لیے حضرت کو ہزاروں مفتی اور مل جائیں گے اور یہ کام اس موقع پر اگر مفتی امتیاز نہ کر سکا تو کوئی اور کرے گا، کہ اس کو ہر حالت میں جاری رکھنا زندگی اور موت کا سوال ہے۔ لیکن کیا یہ اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ حضرت ہزاروی کی دیرینہ ’’سنت مطہرہ‘‘ کے عین مطابق ہمارے یہ قائد ملت بھی کسی اور کی چادر اگلی سیٹ سے ہٹا کر خود دوسرے کی سیٹ پر بیٹھنے کی ’’زیادتی‘‘ کے مرتکب ہوئے؟… اور جب سیٹ کے حقدار موقع پر پہنچے تو انہیں ’’پچھلی سیٹ‘‘ کی طرف بادل ناخواستہ منتقلی کی خجالت و رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا؟۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More