مہمند ڈیم کا ٹھیکہ-عبدالرزاق دائود کی کمپنی کو 20 ارب روپے کا منافع ہوگا

0

امت رپورٹ
مہمند ڈیم کے تعمیری ٹھیکے سے وزیراعظم عمران خان کے مشیر اور ذاتی دوست عبدالرزاق دائود کی کمپنی کو 20 ارب روپے کا منافع متوقع ہے۔
واضح رہے کہ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی ملٹی نیشنل کمپنی ڈیسکون (Descon) نے چینی کمپنی گھیزونبا (Gheezonba) کے ساتھ مل کر مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے 310 ارب روپے کی بولی لگا کر منصوبے کا کنٹریکٹ حاصل کیا ہے، جس پر شدیدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور اسے Conflict of Inerest (مفادات کا ٹکرائو) قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور عبدالرزاق دائود کے دیرینہ تعلقات سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صرف آغاز ہے۔ آگے چل کر اس نوعیت کے اور بالخصوص پاور سیکٹر میں بھی ڈیسکون کو مختلف کنٹریکٹ مل سکتے ہیں۔ کیونکہ ڈیسکون، پاور سیکٹر اور کیمیکل کی فیلڈ میں بھی ٹھیکے لیتی ہے۔ ذرائع کے بقول جب عبدالرزاق دائود کو وزیر اعظم کا مشیر تجارت بنایا گیا تھا تو اس روز سے ہی خود پی ٹی آئی کے بعض حلقوں میں یہ بات چل نکلی تھی کہ سی پیک کے بعض ٹھیکے ڈیسکون کو ملیں گے۔ اس سے قبل پانچ سال کے دوران ’’ڈیسکون‘‘ سی پیک کا ایک کنٹریکٹ بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ ذرائع نے مہمند ڈیم کے ٹھیکے کو سو فیصد مفادات کا ٹکرائو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ، نمل ایجوکیشن فائونڈیشن اور عمران خان فائونڈیشن کو فنڈنگ کرنے والے عبدالرزاق دائود نے وزیر اعظم سے اپنے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھایا ہے۔ عبدالرزاق دائود اس وقت بھی عمران خان فائونڈیشن کے بورڈ کے رکن ہیں۔ جبکہ وہ نمل ایجوکیشن فائونڈیشن اور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے بورڈ میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول ماضی میں وزیر اعظم عمران خان سابق حکمرانوں کے حوالے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ کاروباری افراد حکومت میں آنے کے بعد ریاست سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ تاہم عبدالرزاق دائود کو اپنا مشیر تجارت لگاتے وقت عمران خان نے اپنے اس موقف کو نظر انداز کر دیا اور اب ایک واحد بولی دہندگان کے طور پر مہمند ڈیم کا ٹھیکہ ڈیسکون کو دے کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ عبدالرزاق دائود نے البتہ ہوشیاری یہ دکھائی کہ مشیر تجارت بننے کے بعد ڈیسکون کی چیئرمین شپ اپنے بیٹے تیمور دائود کے حوالے کر دی تھی۔ ذرائع کے مطابق مفادات کے ٹکرائو کی ایک اور مثال پی سی بی کے چیئرمین کے طور پر احسان مانی کی تقرری بھی ہے۔ احسان مانی کا شمار بھی وزیر اعظم کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے۔ ایک پرائیویٹ چارٹرڈ اکائونٹنٹ کنسلٹینسی فرم کے مالک احسان مانی، عمران خان کے خاندانی چارٹرڈ اکائونٹنٹ بھی ہیں۔
ورلڈ بینک کے لئے کنسلٹینسی کرنے والے اسلام آباد میں موجود ایک کنسلٹنٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 310 ارب روپے مالیت کے مہمند ڈیم کے ٹھیکے میں تیس فیصد شیئرز عبدالرزاق دائود کی ڈیسکون کمپنی کے ہیں۔ یہ حصہ 90 ارب روپے کے قریب بنتا ہے۔ تمام اخرجات نکال کر ڈیسکون کو اس ٹھیکے میں کم سے کم 18 سے 20 ارب کا خالص منافع متوقع ہے۔ ورلڈ بینک کے کنسلٹنٹ کے مطابق مہمند ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ ڈیسکون کو دینے پر مفادات کے ٹکرائو کی بحث اپنی جگہ، لیکن ایک اور اہم بات اس کنٹریکٹ کے بولی کے عمل کی شفافیت کے حوالے سے بھی ہے کہ کیا اس ٹھیکے کو دینے میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قوانین کو فالو کیا گیا؟ کیونکہ اس سلسلے میں واپڈا کی جانب سے اب تک کسی بھی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ پی پی آر اے کے قوانین کے علاوہ بین الاقوامی قوانین بھی یہ ہیں کہ آپ بغیر competition کے کسی واحد کمپنی کی بولی منظور کر کے اسے کنٹریکٹ نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم تین سے پانچ کمپنیوں نے بولی دی ہو۔ لہٰذا کیا وجہ ہے کہ سوائے ڈیسکون اور گھیزونبا پر مشتمل جوائنٹ وینچر کے علاوہ دیگر بولی دہندگان سامنے نہیں آئے؟ کیا درست طریقے سے پروجیکٹ کا ٹینڈر مشتہر نہیں کیا گیا؟ کن اخبارات کو اس سلسلے میں اشتہارات دیئے گئے؟ کیا ٹھیکے کے ٹی او آرز میں کوئی ایشو تھا؟ یہ بین الاقوامی سطح کا ایک ٹھیکہ ہے۔ کیا بین الاقوامی طور پر اس کو ایڈورٹائز کیا گیا؟ کنسلٹنٹ کے بقول یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب واپڈا کو دینا چاہئے، ورنہ اس ٹھیکے کی شفافیت کے بارے میں انگلیاں اٹھتی رہیں گی اور بظاہر ایسا محسوس ہو گا کہ یہ ٹھیکہ من پسند کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔
ماضی میں یو ایس ایڈ کے لئے کام کرنے والے ایک اور کنسٹرکشن کنسلٹنٹ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ دنیا میں مہمند ڈیم طرز کے ہزاروں ڈیم بن چکے ہیں، لہٰذا یہ کوئی منفرد قسم کا پروجیکٹ نہیں۔ سنگل سورس یعنی صرف ایک ہی بولی دہندگان کو اس صورت میں کوئی کنٹریکٹ دیا جاتا ہے، جب اس نوعیت کا کام کرنے والی کوئی اور کمپنی دنیا میں نہ ہو۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنسلٹنٹ کا مزید کہنا تھا ’’جب میں یو ایس ایڈ کے لئے کام کرتا تھا تو ہمارے پاس گدو تھرمل پروجیکٹ کے حوالے سے ایک پرپوزل آئی تھی، جس کے تحت سو میگا واٹ کا ایک یونٹ لگانا تھا۔ اس وقت کمبائن سرکل کے نام سے ایک نئی ٹیکنالوجی آئی تھی، جس کے ذریعے استعمال شدہ بھاپ کو دوبارہ کارآمد بنا کر ٹربائن کو چلایا جاتا ہے، تاکہ بھاپ کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس وقت یہ جدید ٹیکنالوجی دنیا میں صرف ایک کمپنی ’’جنرل الیکٹرک‘‘ کے
پاس تھی۔ چونکہ یہ ٹیکنالوجی کسی اور کے پاس نہیں تھی، لہٰذا مجبوراً یو ایس ایڈ کو اپنے پروجیکٹ کے لئے جنرل الیکٹرک کے پاس جانا پڑا۔ جنرل الیکٹرک نے آمادگی ظاہر کر دی اور کہا کہ اسے بولی دی جائے۔ تاہم یو ایس ایڈ نے کہا کہ بولی دینے سے قبل جنرل الیکٹرک اپنا اوور ہیڈ پرسنٹیج بتائے۔ اوور ہیڈ سے مراد کمپنی کے وہ اخراجات ہیں، جو سالانہ بنیادوں پر آڈیٹرز نکالتے ہیں۔ جنرل الیکٹرک نے بتایا کہ اس کا سالانہ اوور ہیڈ 126 پرسنٹ ہے۔ تاہم یو ایس ایڈ نے کہا کہ ہمارے اپنے آڈیٹر جا کر آپ کا اوور ہیڈ چیک کریں گے۔ لیکن جنرل الیکٹرک کمپنی اس پر تیار نہ ہوئی، اور اس نے یہ ٹھیکہ لینے سے انکار کر دیا۔ یہ سو ملین ڈالر کا کنٹریکٹ تھا‘‘۔ کنسلٹنٹ کے بقول کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے بڑے پروجیکٹ میں باریکی سے تمام معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس 310 ارب روپے مالیت کے بڑے مہمند ڈیم پروجیکٹ میں بظاہر بہت سے معاملات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ اس پروجیکٹ کے بولی کے عمل کی بیشتر تفصیلات عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ 310 ارب روپے تقریباً 2 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ کنسلٹنٹ کے مطابق ابھی تک اس پروجیکٹ کے لئے کنسلٹنٹ بھی ہائر نہیں کیا گیا۔ اگر کیا گیا ہے تو تاحال اس کا نام سامنے نہیں لایا گیا۔ کنسلٹینسی فرم نے ہی پروجیکٹ کا ڈیزائن اور نقشہ بنانے کے علاوہ تعمیرات میں استعمال ہونے والے سیمنٹ اور سریے سمیت ایک ایک چیز کے اخراجات کا اندازہ لگانا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس اسسمنٹ کے بغیر پروجیکٹ پر ہونے والے اخراجات بڑھ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ کنسلٹنٹ کے مطابق ٹھیکے کی بولی کے عمل کی شفافیت کو واضح کرنے کے لئے واپڈا کو جو بنیادی تفصیلات فراہم کرنی چاہئے، ان میں Expression of Interest (EOI) ابتدائی مرحلے کی کارروائی ہے۔ سب سے پہلے اخبار میں اس حوالے سے اشتہار دیا جاتا ہے۔ جس کے تحت بولی دہندگان سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ پروجیکٹ کا ٹھیکہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں؟ اگر رکھتی ہیں تو رجوع کریں۔ لیکن اس سلسلے میں واپڈا نے کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں کہ ابتدا میں اس پروجیکٹ میں کتنی کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ ایکسپریشن آف انٹرسٹ کے بعد Request for proposal کا نوٹس مشتہر کیا جاتا ہے کہ فلاں پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔ اس کی بولی میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیاں پروجیکٹ سے متعلق دستاویزات حاصل کر کے اپنا پرپوزل دیں کہ وہ کتنے اخراجات اور عرصے میں یہ پروجیکٹ ڈیزائن کر کے دیں گی۔ اس کے جواب میں دلچسپی رکھنے والی مختلف کمپنیاں اپنے پرپوزل دیتی ہیں۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں ایک اور اشتہار دیا جاتا ہے۔ اس کے دو اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایک، پری کوالیفیکیشن سے متعلق ہوتا ہے، جس میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ اب تک متعلقہ نوعیت کے کتنے پروجیکٹ تیار کر چکی ہیں؟ اس فیلڈ میں ان کا کتنا تجربہ ہے؟ ان کی صلاحیت اور وسائل کتنے ہیں؟ بعد ازاں جواب دینے والی کمپنیوں کی صلاحیت اور وسائل کا تعین کر کے کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کر لیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر دس کمپنیوں نے اپلائی کیا ہے تو اس میں سے مطلوبہ معیار رکھنے والی پانچ یا چھ کمپنیاں شارٹ لسٹ کر لی جاتی ہیں اور پھر ان کمپنیوں کو ٹینڈر دستاویزات بھیجی جاتی ہیں۔ بعد ازاں مذکورہ کمپنیوں میں سے جو کمپنی یا فرم سب سے کم بولی دیتی ہے، اس سے کنٹریکٹ سائن کر لیا جاتا ہے۔ کنسلٹنٹ کے بقول یہ وہ بنیادی تفصیلات ہیں، جو ابھی تک مہمند ڈیم کے پروجیکٹ کی بولی کے حوالے سے منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔
واضح رہے کہ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بتایا ہے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کے ٹھیکے کے لئے دو جوائنٹ وینچر ’’ڈیسکون‘‘ اور ’’گھیزونبا‘‘ اور ’’ایف ڈبلیو او‘‘ اور ’’پاور چائنا کمپنی‘‘ نے بولیاں دی تھیں۔ تاہم ایف ڈبلیو او اور پاور چائنا کمپنی کا جوائنٹ وینچر بولی جیتنے کے لئے مطلوبہ کوالیفیکیشن اور تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ اس بارے میں کنسلٹنٹ کا کہنا ہے کہ کسی کمپنی کے تجربے اور صلاحیت کا تعین بولی کے اسٹیج پر نہیں کیا جاتا۔ یہ مرحلہ پری کوالیفیکیشن کے موقع پر طے کر لیا جاتا ہے۔ جب کوئی کمپنی پری کوالیفیکیشن کا مرحلہ طے کر لے تو اس کی بولی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ واپڈا کو یہ وضاحت کرنا ہو گی کہ ایف ڈبلیو او اور پاور چائنا کمپنی کے جوائنٹ وینچر کی بولی کو کس مرحلے پر مسترد کیا گیا۔ جبکہ دو یا تین کمپنیوں کے جوائنٹ وینچر کو ایک کمپنی تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ کسی بڑے پروجیکٹ کی بولی کے لئے کم از کم تین سے زائد بولی دہندگان کے درمیان مقابلہ ضروری ہے۔ ورنہ بولی منسوخ کر کے دوبارہ ٹینڈر دیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More