عباس ثاقب
میری بات سن کر ظہیر سے پہلے یاسر نے ردِ عمل ظاہر کیا۔ ’’بھائی، میں نے آپ لوگوں کو ابھی کچھ ہی دیر پہلے بتایا ہے کہ فی الحال آپ لوگوں کا باہر نکلنا بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ پورے پنجاب میں پولیس آپ لوگوں کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی ہے‘‘۔
میں نے پیار بھرے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔ ’’آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں یاسر بھائی۔ بلاشبہ ہمارے لیے باہر بہت خطرہ ہے۔ لیکن اگر ہم ان خطرات کے تمام پہلوؤں کا تعین کرلیں تو ان سے بچاؤ کی تدابیر بھی اختیارکی جا سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر خطروں سے مکمل تحفظ نہ بھی مل سکا تو کم ازکم شدت ضرور کم ہوجائے گی‘‘۔
ان تینوں نے میری بات توجہ سے سنی اور پھر ناصر نے کہا۔ ’’اگر دل کی بات کہوں تو میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ دونوں فی الحال گھر تک محدود رہیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگ اس سے زیادہ خطرناک حالات میں کامیابی سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں اور اپنا کام ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ اگر آپ یہی مناسب سمجھتے ہیں تو ہم ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں‘‘۔
یاسر نے بھی سر ہلاکر اپنے بھتیجے کی تائید کی۔ میں نے کہا۔ ’’چلیں پہلے آپ لوگ ذرا توجہ سے ان خطرات کے حوالے سے میرا تجزیہ سن لیں، جو ہمیں پیش آسکتے ہیں، اور اپنے اپنے طور پر میرے تجزیے کی خامیوں اور کمزوریوں کا تعین کریں اور انہیں دور کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کریں۔ اگر آپ تینوں بھی اپنا اپنا تجزیہ پیش کریں تو یہ سونے پر سہاگا کے مترادف ہوگا۔ اگر اس تمام گفتگو کے بعد بھی ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری کامیابی کے مقابلے میں ناکامی کا خطرہ زیادہ ہے، تو ہم اپنے اس ارادے کو خطرہ ٹلنے تک ملتوی کر دیں گے‘‘۔
ان تینوں نے میری رائے سے اتفاق کیا۔ میں نے اپنے خیالات مجتمع کرنے میں کچھ وقت صرف کرنے کے بعد کہا۔ ’’جیسا کہ ظہیر بھائی، تم نے بتایا، کہ پولیس کے پاس ہمارے بارے میں صرف چند ہی معلومات ہیں۔ انہیں دو مرد اور دو خواتین ملزمان کی تلاش ہے۔ دونوں لڑکیاں کشمیری نسل کی اور انتہائی خوب صورت ہیں۔ یہ چاروں افراد ایک جیپ میں سوار ہوکر فرار ہوئے ہیں اور ان کے پاس بھاری مقدار میں رقم اور طلائی زیورات وغیرہ موجود ہیں‘‘۔
میں نے رک کر ان تینوں کے چہروں کا جائزہ لیا۔ وہ غور سے میری بات سن رہے تھے۔ یاسر اور ظہیر نے باری باری تائید میں گردن بھی ہلائی۔ میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ سب معلومات بظاہر کافی ٹھوس لگ رہی ہیں، لیکن درحقیقت یہ انتہائی کمزور اور ناکافی ہیں۔ مثلاً اگر میں ان دونوں بہنوں میں سے کسی کو برقع پہنا کر بہن کی حیثیت سے موٹر سائیکل یا بس پر لدھیانے کی طرف نکل جاؤں تو کوئی عقابی نظریں رکھنے والا پولیس اہلکار بھی مجھ پر شک نہیں کرے گا‘‘۔
انہوں نے میری تائید کی، تاہم ناصر نے سوال اٹھایا۔ ’’لیکن شیامک تو آپ کو پہچانتا ہے۔ اس نے آپ کی شکل و صورت، حلیہ اور چال ڈھال، سب کچھ تفصیل سے پولیس کو بتادیا ہوگا‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ناصر بھائی یہاں بھی بالکل وہی صورتِ حال ہے۔ انہیںایک مخصوص شکل و صورت اور عمر کے بندے کی تلاش ہوگی۔ اگر میں اپنی شکل اور حلیے میں مناسب تبدیلی کرلوں تو ان کی توجہ حاصل کیے بغیر باآسانی عین ان کی ناک کے نیچے سے نکل سکتا ہوں۔ مثال کے طور پر ظہیر اپنے بوڑھے اور بیمار باپ کو موٹر سائیکل پر ڈاکٹر یا حکیم کے پاس لے جارہا ہو تو کوئی عام پولیس والا ہم پر کتنی توجہ دے گا؟‘‘۔
میری بات سن کر یاسر نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ لوگ تو پہلے بھی اسی طرح حلیہ بدل کر کام نکالتے رہے ہوں گے۔ بھئی مجھے تو آپ نے مطمئن کر دیا‘‘۔
یاسر کی طرح ظہیر اور ناصر نے بھی میرے مؤقف پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے ذہن میں تشکیل پانے والے منصوبے کا خاکہ ان کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اس پر کوئی خاص اعتراضات نہیں اٹھائے۔ البتہ یاسر اور ناصر کو میری اس رائے پر خدشات تھے کہ کسی مرحلے پر پولیس کی طرف سے تلاشی لیے جانے کے پیش نظر ہم دونوں کو کسی بھی قسم کے ہتھیار کے بغیر اپنے اس مشن پر نکلنا ہوگا۔
میری جگہ ظہیر نے انہیں تسلی دی۔ ’’میں جمال بھائی سے متفق ہوں۔ ہمیںگھر سے نکلتے ہی خوا مخواہ کا خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ فکر نہ کرو بھائیو، دو چار پولیس والوں سے تو ہم خالی ہاتھ بھی نمٹ لیں گے اور ضرورت پڑی تو ان ہی کے ہتھیار ہمارے کام آئیں گے‘‘۔
اگر ان دونوں کے دل میں ہماری سلامتی کے حوالے سے کوئی اندیشہ باقی بھی ہوگا تو انہوں نے اظہار نہیں کیا اور ہم سے اتفاق کیا۔ طے یہ پایا کہ اگلے روز علی الصباح ہی ہم اپنے مشن کا آغاز کر دیں گے۔ ناصر نے یقین دلایا کہ وہ منصوبے کے مطابق کچھ ہی دیر میں ہمارے لیے ایک عمدہ کار کا بندوبست کر دے گا۔ ہم سب کے متفق ہونے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ رخسانہ اور جمیلہ کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں لے لیا جائے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post